شوگر کے مرض کو "Silent Killer” یعنی ’’خاموش قاتل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مرض سے بروقت آگاہی سے اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کی لاعلمی میں اس کا وار زیادہ شدید اور خطرناک ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں قریباً 41 کروڑ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں، جب کہ ایک تحقیق کے مطابق جاں بحق ہونے والا ہر پانچواں فرد ذیابیطس کا شکار ہوتا ہے۔ شوگر کی بیماری سے ہر 8 سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہو رہی ہے اور شوگر کی وجہ سے ہونے والی ان اموات کا تعلق غریب اور درمیانی طبقہ سے ہے۔
پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں شوگر کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں قریباً دو کروڑ افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر ہے۔
ذیابیطس ایک مہلک اور دائمی مرض ہے، جس میں انسانی جسم میں لبلبہ انسولین کا اہم ہارمون نہیں بنا پاتا، جس کی وجہ سے جسم میں گلوکوز (شکر) کی مقدار کنٹرول نہیں ہوپاتی۔ گلوکوز انسانی خلیوں کے لیے توانائی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کا خون میں کم یا زیادہ ہونا دونوں ہی صورتوں میں صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ شوگر کے مرض کی علامات میں پیشاب زیادہ آنا، بھوک زیادہ لگنا، پیاس زیادہ لگنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، وزن کم ہونا،نظر کا دھندلا ہونا، زخموں کا نہ بھرنا اور پسینا زیادہ آنا شامل ہیں۔
شوگر کی وجہ سے پاؤں میں بہت زیادہ جلن ہونا، پاؤں کی شکل میں تبدیلی ہو جانا، یا پھر پاؤں اتنے سُن ہو جانا کہ جوتا اُترنے کا احساس بھی نہ ہو، خطرناک علامات ہیں۔
ذیابیطس کا مرض دائمی ہے۔ اس کے مریضوں کو انسولین کو کنٹرول کرنے کے لیے اکثر زندگی بھر گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ زیادہ شدید کیسوں میں انسولین کے انجکشن لگانے پڑتے ہیں۔ یہ مرض وقت کے ساتھ ساتھ آنکھوں، پٹھوں، اعصاب، گردے، ہاتھوں اور پیروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بعض مریضوں کو ہاتھوں یا پاؤں کی انگلیوں میں کینگرین بھی ہو جاتا ہے، جس سے کبھی کبھی انھیں کاٹ دینا پڑتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کولڈ ڈرنکس اور چائے میں چینی کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان شوگر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ فاسٹ فوڈ کا استعمال بھی شوگر کا مرض پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف سفید چینی کا زیادہ استعمال ہی شوگر کا مرض پیدا کرتا ہے۔ یاد رکھیے! میٹھا چاہے گڑ کی شکل میں ہو، دیسی شکر کی شکل میں ہو یا شہد کی شکل میں، یہ سبھی شوگر پیدا کرتے ہیں۔
جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے میں پیدا ہونے والا ہارمون (انسولین) ہمارے جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔ ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی، یا کام نہیں کرتی۔ اس وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں، تاہم عمومی طور پر اسے دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ٹائپ ون میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاو میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ سائنس دان ابھی تک یہ تو نہیں جان پائے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے، تاہم ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے، یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہوجاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا 10 فی صد ٹائپ ون کا شکار ہیں۔
ٹائپ ٹو کا شکار عام طور پر 40 سال سے زائد عمر کے افراد ہوتے ہیں۔ تاہم اب کھانے پینے میں بے اعتدالیوں کے سبب یہ 40 سال سے کم عمر افراد بھی اس کے نرغے میں آ رہے ہیں۔ ٹائپ ٹو میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا، یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔
ذیابیطس تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق گذشتہ 40 سالوں میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف پاکستان میں ہر سال اس مرض کی وجہ سے ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہوجاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر 11واں بالغ فرد ذیابیطس سے متاثر ہے، جب کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں، بل کہ پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ شوگر ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 15 سے 20 کلو گرام وزن کم کرنے سے 50 فی صد ذیابیطس کے مریض اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔جسم کا صحت مند حد تک وزن شوگر لیول کو کم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں، تو اسے آہستہ آہستہ کم کریں یعنی آدھا سے ایک کلو تک ہفتے میں کم کریں۔ شوگر کے مریض روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی لا کر صورتِ حال میں بہتری لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے اہم کام پیدل چلنا(واک) ہے۔ 20 سے 25 منٹ روزانہ یعنی ہفتے میں مجموعی طور پر ڈھائی گھنٹے ورزش کریں۔ صحت مند خوراک کا رجحان اپنائیں۔ پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال کریں۔ ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، بیکری کی اشیا، سفید پاستا، سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل غذائی اعتبار سے بہت کم کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔