محکمۂ موسمیات نے رواں سال ملک میں مون سون کے موسم میں معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کی پیشین گوئی کی تھی…… اوراس کے عین مطابق مون سون کا سیزن وقت سے کچھ پہلے 14 جون کو شروع ہوگیا۔
مون سون کی بارشوں کے ابتدائی اسپیل (First Spell) نے صوبہ بلوچستان اور پھر پنجاب، سندھ اور اب خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان طویل بارشوں کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ بارشوں کے تواتر سے جاری اسپیلز نے پاکستان میں ملکی تاریخ کی بدترین تباہی مچائی ہوئی ہے۔
’’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘‘ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بدترین طوفانی بارشوں اور بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلوں میں سیلابی ریلوں، لینڈ سلائیڈنگ اور چھتیں گرنے سمیت دیگر واقعات میں اب تک ملک بھر کے تقریباً 116اضلاع میں بدترین تباہی ہوئی۔ 340 بچوں اور 211 خواتین سمیت 1003 جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں 260، سندھ میں 320، صوبہ خیبر پختونخوا میں 187 اور پنجاب میں 184 اموات ہوئی ہیں۔
اس طرح متاثر ہونے والے مویشیوں کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ ہے۔ 10 لاکھ سے زاید کچے مکانات تباہ اور تقریباً 3 کروڑ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ بارشوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس لیے آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافے کاخدشہ ہے۔
رواں سال کی بارش اور سیلاب کے باعث ملکی زراعت کو اب تک تقریباً 750 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں 30 لاکھ ایکڑ (8300 مربع کلومیٹر) رقبے پر 3 لاکھ ایکڑ پر چاول، 6 لاکھ ایکڑ پر کپاس، 3 لاکھ ایکڑ پر گنے، 6 لاکھ ایکڑ پر چنے، مکئی، پھلیاں، کالی مرچ، سرخ چنے اور دالوں کی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ 5 لاکھ ٹن اسٹاک کیے گئے گندم کے ذخایر کو بھی متاثرہ کیا ہے۔
دریائے سندھ کے کچے کا 80 فی صد سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے۔ سیلاب نے 2004ء کے بدترین سیلاب کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ رواں سال زرعی پیداوار میں 20 فی صد تک کمی کا خدشہ ہے۔ پہاڑی نالوں سے جنم لینے والے سیلابی ریلوں نے 3500 کلومیٹر سے زاید سڑکوں اور شاہراہوں کو تباہ یا متاثر کیا۔ 280 کے قریب چھوٹے اور بڑے پل زمین بوس ہوگئے یا سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ تباہ ہونے والوں پلوں میں 21 ریلوے کے پل بھی شامل ہیں۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہونے والے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی مطابق سندھ،پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشوں سے ملک کے بڑے آبی ذخایر پانی سے بھر چکے ہیں جن میں تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ 5.827 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ مزید گنجایش نہیں۔ منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیر 7.356 ملین ایکڑ فٹ ہے اور 4.29 ملین ایکڑ فٹ پانی کے ذخیرہ کی گنجایش موجود ہے۔ حب ڈیم بھی بھر چکا ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی قدرتی منچھر جھیل بھی طویل عرصے بعد پانی سے مکمل بھر چکی ہے۔ ملک میں بارشوں سے ملک کے تما م دریاؤں میں بھی سیلابی کیفیت ہے۔ کئی دہائیوں سے خشک دریائے راوی میں ہندوستان نے 1 لاکھ 70 ہزار کیوسک پانی چھوڑا۔دریائے سندھ میں گڈو بیراج سے 5 سے 6 لاکھ کیوسک پانی کا بہاؤ جاری ہے۔ کوٹری بیراج ڈاؤن اسٹریم سے 2 لاکھ 30 ہزار کیوسک سے زاید پانی کئی ہفتوں سے تواتر کے ساتھ سمندر برد ہو رہا ہے۔ جمعہ 26 اگست کو تازہ ترین ملنے والی اطلاعات کے مطابق کوہستان، چترال اور سوات میں بارشوں سے دریائے کابل میں تین لاکھ کیوسک پانی آنے سے دریائے سندھ میں گڈو کے مقام پر 8 لاکھ کیوسک کا ریلا بننے کا اندیشہ ہے جو دریائے سندھ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب کہلاتا ہے۔
چاروں صوبوں میں بارشوں اور سیلاب سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے اونچے محفوظ مقامات پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر بار، مال مویشی اور جمع پونجی سب کچھ پانی کی نذر ہوچکا ہے۔ یہ لوگ دووقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی امداد کے لیے قدرتی آفات سے نبٹنے والا ادارہ این ڈی ایم اے نے سندھ، پنجاب، کے پی، بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے مکینوں میں ٹینٹ،مچھر دانیاں، ترپالیں، پلاسٹک کی چٹائیاں، پانی کے کین،فوڈ پیکٹس، لائف سیونگ جیکٹس، بیڈ / چارپائیاں، کشتیاں اور پانی کی نکاسی کے پمپ فراہم کیے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے دوران میں سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے افراد کومحفوظ مقامات تک پہچانے میں مدد فراہم کر رہا ہے، لیکن بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں قیامت خیز ہیں۔ ملک میں شدید بارشوں اور سیلاب سے تباہی کے باعث وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنے دورۂ قطر مکمل کرنے کے بعد شیڈول دورۂ برطانیہ کینسل کرکے وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اعلا سطحی اجلاس میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ہر ممکن امداد اور امدادی فنڈز کے لیے اکاؤنٹ کا بھی قایم کیا ہے۔ جمعہ کے روز وزیرِ اعلا سندھ کے ہم راہ سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورے پر ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاست کو موخر کرکے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آگے آئیں۔
دوسری جانب پاک فوج کا سیلاب کے حوالے سے منعقدہ کور کمانڈر اجلاس میں آرمی چیف قمر جاوید باوجوہ نے سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی تک چین سے نہ بیٹھنے کا اعلان کیا۔ ملک میں تاریخ کی بدترین بارشوں اور سیلاب کے بعد افواجِ پاکستان، ملکی غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ہلپنگ ہینڈز، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن بارشوں اور سیلاب سے تباہ کاریا ں توقع سے بڑھ کر ہیں۔ اس لیے حکومت نے متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے ملک میں قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی ذمے داریاں اپنی جگہ لیکن ہر پاکستانی کی بحیثیتِ مسلمان اور پاکستانی شہری یہ ذمے داری اور فرض ہے کہ وہ اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ وقت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اس کے منتخب نمایندوں کے امتحان کا بھی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی مدد میں اپنا کتنا حصہ ڈالتے ہیں؟
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔