تحریک خالصتان کی اگر بات کریں، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ سکھوں کو ایک الگ اور آزاد ریاست کی آواز اٹھانے کی خاطر باقاعدہ طور پر مجبور کیا گیا تھا۔ انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوؤں کے سیاسی رہنما دوبارہ اسی تنظیم کی پٹری پر چلتے دکھائی دیے، جو تقسیمِ ہند سے پہلے وجود میں آئی تھی۔اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ ’’ہندوتوا‘‘ کا بول بالا رہے پوری بھارت ماتا میں۔ سنہ 1947ء کی آزادی سے پہلے اس تحریک کو صرف ہندوؤں کی فلاح کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پر اصل مقصد سے وقتی طور پر خاموشی اختیار کی گئی تھی۔ کیوں کہ انگریزوں کی غلامی سے اگر آزادی حاصل کرنے کا اصل جذبہ تھا، تو وہ صرف سکھ اور مسلمان نوجوانوں میں تھا۔ وطن سے محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اسی اصل جذبے کا استعمال کرکے ان چالاک اور مکار ہندو رہنماؤں نے بڑا فائدہ اٹھایا۔ گاند ھی جی موتی لعل نہرو سے پارٹی فنڈ کے نام پر بھاری رقوم لیتے تھے۔ موتی لعل نہرو دیتے بھی کیوں ناں! گاندھی جی نے ان سے موتی لعل نہرو کے لعل، جواہر لعل کو ’’پردھان منتری‘‘ یعنی وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانے کا وعدہ جو کیا تھا۔ پر گاندھی جی کے راستے میں سب سے بڑاکانٹا محمد علی جناح تھا۔ جناح صاحب کئی خدادا صلاحیتوں کے مالک تھے۔ کسی کوپرکھنے میں دیر نہ لگاتے۔ اس لیے وہ جلد ہی گاندھی جی کی گندی چالوں کو بخوبی جان گئے۔ ان کی کرشماتی شخصیت سے لوگ جلد متاثر ہوتے۔ اپنی قابلیت اور دلیرانہ فیصلوں کی بدولت بہت کم عرصے میں کانگریس کے کئی اہم رہنماؤں کے دلوں میں بس گئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دور میں جناح صاحب کئی نیتاؤں کی آنکھ کا تارا بن چکے تھے۔ گاندھی، جناح کو اپنے لیے مستقبل کا خطرہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ جناح کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے چالیں چلتے رہے۔ آخرِکار گاندھی جی اپنے مقصد میں کامیاب ہو ہی گئے۔ نتیجتاً جناح نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کانگرس کو خیر آباد کہہ دیا۔
قارئین، دراصل جناح جان چکے تھے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندو مسلمانوں اور دیگر مذاہب والوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اس لیے بار ہا جناح سکھوں کو سمجھاتے رہے کہ خدارا، گاندھی جی کے جال سے دور رہیں۔ پر سکھوں میں لیڈر شپ کی کمی کی وجہ سے وہ جناح کے اس پیغام کو سمجھ نہ سکے۔ کیوں کہ بھگت سنگھ جیسے نوجوان لیڈر کو گاندھی اپنے راستے سے ہٹا کر سولی پر لٹکا چکے تھے۔ میدان اب خالی تھا۔ بس کانٹا تھا تو ایک جناح صاحب، جنہوں نے گاندھی کو اس کے مقصد میں کامیاب ہونے ہی نہیں دیا۔
خیر، آزادی ملی اور بٹوارا ہوگیا۔ اس دوران میں لاکھوں معصوم لوگ مارے گئے۔ ہزاروں بے گھر ہوئے۔ آزادی ملتے ہی ہندو رہنما، سکھوں سے کیے گئے وعدوں سے منکر ہوگئے۔ اب ہندو نیتا 1826ء میں بنائی گئی تنظیم ’’آر ایس ایس کے حقیقی مشن پر عمل پیرا نظر آئے اور 1956ء میں پہلی بار، سکھوں کے مقدس مقام سری ہرمندر صاحب یعنی ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ پر حملہ کیا۔ اس حملہ میں سیکڑوں معصوم سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ سکھوں پر ہندو سرکار کی جانب سے نہ ختم ہونے والاحملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سکھوں کو جناح کے بتائے ہوئے وہ سنہری الفاظ یاد آرہے تھے پر ’’اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چک گئیں کھیت!‘‘ اور آخرِکار1984ء میں خالصتان کی آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی۔
اُس وقت بھارت کے تخت پر اندرا گاندھی براجمان تھی، جسے اپنی طاقت پر کافی گھمنڈ تھا اور ہوتا بھی کیوں نہ؟ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اندرا گاندھی کے کان جو بھرے تھے۔ آخرِکار بھارتی سرکار نے ’’خالصتان تحریک‘‘ کو کچلنے کا اعلامیہ جاری کر دیا۔ سکھوں کے لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والے اور ان کے ساتھ جُڑے آزادی کے متوالوں کو دبانے کے لیے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اندرا گاندھی کو آپریشن کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ مشورہ یہ تھا کہ خالصتان کی اس تحریک سے جڑے لوگوں کو صرف دو گھنٹوں میں ہی ناک رگڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کے لیے ـ’’بلیو سٹار‘‘ نامی آپریشن دو گھنٹے کی بجائے پانچ دن تک جاری رہا۔ یہی وہ آپریشن تھا جو اندرا گاندھی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس کی موت کا بھی سبب بننا۔
دوسری جانب مظلوم کشمیری جو 70 سال سے اسی ظلم و ستم کی آگ میں سلگ رہے ہیں، بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے ہزاروں متوالے ’’برہان وانی‘‘ کی طرح اس جنگِ آزادی میں اپنی جان نثار کرچکے ہیں۔ آزادی کی یہ تحریک آج بھی ختم نہیں ہوئی۔ بھارتی فوج کی بر بریت کے سامنے اب بھی ہزاروں کشمیری چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
یوں بی جے پی جو ’’آر ایس ایس‘‘ کی دوسری شاخ ہے اور جسے ہمیشہ پاکستان اور بالخصوص ’’مسلمان نفرت‘‘ کی بنا پر ووٹ ملا ہے، اسے اس بار پانچ ریاستوں میں بڑی شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ اس شکست کے بعد بی جے پی کو اپنا مستقبل خطرے میں دکھائی دیا، تو وہی آزمودہ فارمولا اپنا نے کا سوچا گیا۔ پلوامہ میں اپنے ہی جوانوں پر حملہ کروایا اور پھر اپنے میڈیا کے ذریعے دن رات پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرواتا رہا۔ لیکن اس بار مودی سرکار کو بری طرح منھ کی کھانا پڑی۔ کیوں کہ زمانہ بدلا، تو بدلے حالات۔ اب سوشل میڈیا ہے، نہ کہ مودی سرکار کا کنٹرول کیا ہوا میڈیا۔ سچائی سب کے سامنے ہے۔ مودی سرکار کے خلاف بھارت کے اندر سے ہی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ہر ذی شعور انسان ثبوت مانگ رہا ہے۔
اس طرح ساؤتھ انڈین فلم کی طرز پر چلتے بھارتی میڈیا کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ پاکستان پر حملے کے بعد تین سو دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ بھی بھارتی فوج اور مودی کے گلے پڑگیا ہے۔
بھارتی ائیرفورس کی جانب سے پاکستان پر حملہ بھی پاک فضایہ کے نوجوانوں نے بری طرح ناکام بنا دیا ہے، جس سے بھارت کو بھاری نقصان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یوں پوری دنیا نے وزیر اعظم عمران خان کے مؤقف کی بھر پور حمایت کی ہے۔
بھارت میں ’’رچی‘‘ اس ’’رچنا‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔کشمیر میں بھارتی فوج کی ناکامی سب کے سامنے ہے۔ اس سے حالات کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب منزل دور نہیں، جسے ہر کشمیری کو پانے کی چاہ ہے۔ ہمارے دکھ بھی کشمیریوں سے الگ نہیں۔ ہم بھی اک نہ اک دن اپنی منزل پالیں گے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔