تحقیق و تحریر: صوفیہ کاشف
17 سال کی عمر میں شکاگو میں ڈرگ سٹور پر ایک سامان پہنچانے والے لڑکے کے طور پر کام ایک بہترین نوکری تھی۔ کیوں کہ اس کے ذریعے خودکشی کے لیے ’’نیند کی گولیاں‘‘ چرانا ممکن تھا۔
منصوبہ بندی کے عین مطابق سڈنی نے گھر میں 20 گولیاں اور شراب اکٹھی کرلی۔ کیوں کہ نیند کی گولیاں اور شراب ایک مار دینے والا جوڑ ہیں۔ گھر کی تنہائی میں سڈنی جب منصوبے کی تکمیل کے لیے ہاتھ میں گولیاں لیے موت سے گلے ملنے کو تیار تھا، تو عین اسی لمحے دروازہ کھول کر اس کا باپ ’’اوٹو‘‘ کمرے میں داخل ہوا۔
30 سال تک فلم، ٹی وی ڈراما، تھیٹر اور ناولز کی چار دنیاؤں پر راج کرنے والا داستان گو، ’’سڈنی شیلڈن‘‘ 1934ء میں خودکشی کے طویل المدتی منصوبے بناتا تھا اور اگر جو وہ اپنے ان منصوبوں میں کامیاب ہوگیا ہوتا، تو آج دہائیوں کے بعد دنیا کے پرلی طرف بیٹھی مَیں اس کی داستانِ حیات مرتب نہ کررہی ہوتی۔ نیند کی گولیاں کھا کر مرجانے والے اس ’’سڈنی شیلڈن‘‘ کا نام شکاگو کے شہری بھی چند ہی روز میں بھلا دیتے۔ جب حیات کو اس کی مشکلوں سمیت سینے سے لگایا جاتا ہے۔ اس کے نشیب اور ناکامیوں کے رستوں پر سے خون آلود قدموں کے ساتھ گزرا جاتا ہے، تبھی رات کے اندھیرے سے کامیابی کے سورج طلوع ہوتے ہیں اور دنیا کی اطراف میں آپ کے ہنر کی چمکیلی دھوپ پھیلتی ہے۔ سڈنی شیلڈن نام کا یہ آفتاب بھی چار آسمانوں پر بیک وقت چمکنے سے پہلے جدوجہد کی سڑکوں پر ’’سڈنی سکیچل‘‘ کی صورت اتنا ہی بے بس اور پریشان تھا…… جتنا آج ہم میں سے بہت سے ان رستوں پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب سویرا اس کی طویل جدوجہد کا مقدر بنا، تو ادب کی دنیاؤں میں اس کے نام کا ڈنکا کئی دہائیوں تک بجا۔
٭میرا خواب کالج میں پڑھنے کا تھا مگر میرے پاس اس کے لیے پیسے نہ تھے:۔ مسٹر بلاک بسٹر کہلانے والا ’’سڈنی شیلڈن‘‘ نوجوانی میں خود کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ کیوں کہ ایک خوب صورت مکمل زندگی کا خواب رکھنے والے کے پاس گھر، خاندان اور زندگی کے نام پر صرف بدصورتی اور مفلسی تھی۔ پریوں کی زندگی کا خواب دیکھنے والی ’’نیٹیلی‘‘ (Natalie) اور امارات کے لیے چھوٹے اور تیز رفتار رستے ڈھونڈتا ’’اوٹو‘‘ (Otto) کا آپسی رشتہ بدترین سطح تک تلخیوں کا شکار ہوچکا تھا اور اس کی کڑواہٹ کم عمر سڈنی کی مستقبل سے اُمیدیں بہائے لیے جارہی تھی۔
چھٹی کا غمگین روز
سایوں کے سنگ بسر کیا
میرا دل اور مَیں
اب فیصلہ کرچکے اس کے انجام کا!
اُن دنوں یہ مشہور گانا شاید سڈنی ہی کی زندگی کا نغمہ سناتا تھا۔ سڈنی کو ایک بہترین مستقبل چاہیے تھا…… لیکن آنے والے وقت سے اس کا شعور صرف سیاہیوں کی توقع کرنے لگا تھا۔ سڈنی کے دامن سے خوف بندھے ہوئے تھے۔ اس کے پاس چمکتے ہوئے خواب تھے، مگر درحقیقت وہ صرف ایک ڈرگ سٹور کا ڈیلیوری بوائے تھا۔ سڈنی لکھاری بننا چاہتا تھا اور بے شمار کہانیاں لکھ لکھ کر رسالوں میں بھیجتا رہتا اور وہاں سے ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کے اطلاع نامہ وصول کرتا۔ کوئی ایک بھی تو سپنا ایسا نہ تھا جو اس کی زندگی میں اُمید لے کر آتا۔ غربت اور افلاس نے اس کی پڑھائی تقریباً ناممکن بنادی تھی اور وہ تین تین جگہوں پر حقیر سے حقیر کام کرکے بھی اس کو ممکن نہیں کر پاتا تھا۔ امریکہ کے طول و عرض پر پھیلی بدنامِ زمانہ معاشی ابتری ان کے گھر اور زندگیوں کی تہ تک اتر چکی تھی۔
زندگی ایک ناول کی طرح ہے۔ حیرت انگیز تبدیلیوں سے بھری ہوئی، تم کو خبر نہیں ہوتی کہ صفحہ اُلٹنے کے بعد کیا ہونے والا ہے؟
سیلز مین ’’اوٹو‘‘ نے سڈنی کو دلیلوں سے قائل کرلیا کہ زندگی کی کتاب کے چند صفحات اُلٹ کر دیکھنے چاہئیں۔ کون جانے اگلے صفحات پر کیسے عجوبے ہمارے منتظر ہوں۔ خودکشی کی آپشن محفوظ رکھ کر سڈنی نے اس کتاب کے کچھ اور صفحات کے مطالعہ کا فیصلہ کیا۔
دوسری اور تیسری دہائی میں شکاگو جیسے ایک شور مچاتی ٹرینوں، گھوڑا گاڑیوں، لوگوں سے اَٹے ساحلوں اور مویشی فارموں کی بُو سے بھرے علاقے کے اسکول میں ساتویں کلاس کے بینچ پر بیٹھ کر سڈنی نے لکھاری بننے کے خواب دیکھے۔ انگریزی کی کلاس میں وہ اکثر سوچتا کہ کیسا ہو اگر پڑھنے کے لیے استاد کتاب کھولیں، تو جو کہانی نکلے اس پر سڈنی کا نام بہ طورِ مصنف لکھا ہو۔ سڈنی نے بارہ سال کی عمر میں اسکول کے پراجیکٹ کے لیے ایک جاسوسی ڈراما لکھا، جو کلاس کے استاد کو حیرت زدہ کرگیا اور اس ڈراما کو سٹیج کرنے کی پیشکش کی گئی۔ یکایک سڈنی اسکول کی ایک مشہور ہستی بن گیا۔ دوسرے بچے کردار حاصل کرنے کی خواہش میں اس کے گرد منڈلانے لگے۔ اسکول آڈیٹوریم سڈنی کے لیے کھول دیا گیا اور اس کی ہر مطلوبہ چیز میز کرسی اور بنچ مہیا کردیے گئے۔ آڈیٹوریم میں ڈراما کی ہدایات دیتے اور جی جان سے ریہرسلز کرتے یہ لمحات سڈنی کی زندگی کے بہترین لمحات میں سے تھے، جب وہ خود کو ’’براڈوے‘‘ کی ایک مشہور ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر سمجھ کر اپنے عظیم الشان کیرئیر کی شروعات کررہا تھا۔ وہ ماں کو دی گئی ایک پیشین گوئی کی تکمیل کررہا تھا کہ ایک دن سڈنی دنیا بھر میں شہرت حاصل کرے گا!
ڈراما اسٹیج ہونے کا وقت آیا انگریزی کے طالب علموں اور اساتذہ سے آڈیٹوریم بھر گیا۔ پرنسپل صاحب بھی ایک کم عمر اور عظیم ڈائریکٹر کے اس خصوصی ڈراما کو دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ پردے کے پیچھے کھڑا سڈنی اسٹیج پر اپنے داخلے کا منتظر تھا کہ سٹیج پر موجود لڑکا ایک چھوٹی سی غلطی کر بیٹھا، جس سے سڈنی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ چھوٹی سی ہنسی بڑھتے بڑھتے ہنسی کا دورہ بنتی چلی گئی اور پھر اساتذہ کی ڈانٹ بھی اس کو روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اپنے کردار کی انٹری کا انتظار کرتے اور اس کی ہنسی سے بدمزا ہوتے سب آڈیٹوریم چھوڑ کر جانے لگے۔ حتی کہ سڈنی اپنی بے وقت ہنسی، خوابوں کی کرچیوں اور ڈوب مرنے کی خواہش کے ساتھ تنہا رہ گیا۔ غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ غلط فیصلے بھی، کم عقلی بھی آڑے آتی ہے اور کم ہمتی بھی، ٹھوکریں بھی لگتی ہیں اور دامن سے ناکامی بھی بار بار لپٹتی ہے…… مگر زندگی کی کتاب کے صفحات ہمت سے اُلٹتے رہنا ہی کامیابی کی دلیل ہے ۔
’’اوٹو‘‘ اور ’’نیٹیلی‘‘ کے غیر مفاہمتی رویے اور روز بہ روز کے بد لحاظ جھگڑوں نے سڈنی کے بچپن اور جوانی کو بدصورت کر رکھا تھا۔ معاشی بدحالی گھر کی چار دیواری سے ہی نہیں، گھر والوں کے تعلقات کی بدمزگی اور اعصاب کو شل کرتی غربت، شدید خواہش کے باوجود تعلیم سے دوری سڈنی کے خوب صورت خوابوں کی دنیا کے لیے خاصی حوصلہ شکن تھی۔ زندگی کی بگڑتی سنبھلتی گرتی پڑتی صورتِ حال اس کے رویوں کو بھی متزلزل اور بے یقینی کی کیفیت میں ڈھالتی جاتی تھی۔ پل پل بدلتے مزاجوں میں اس کی ذہانت کے علاوہ اس کے مقدر کے کانٹوں کا بھی حصہ تھا۔ ایک پل میں ولولے بھرے دل میں کامیابی کے ترانے بجنے لگتے، تو دوسرا پل خوابوں کی زمینوں پر زلزلے برپا کر دیتا۔ شخصی کم زوریاں سنبھلنے لگتیں، تو معاشی کمزوریاں ہمت توڑ دیتیں۔ مشکلوں سی مشکلیں تھیں اور تکلیفوں سی تکلیفیں تھیں۔
کسی عقلمند نے کہا ہے کہ مصنف بننے کے لیے صرف ایک کاغذ، قلم اور ایک ناکام خاندان چاہیے اور بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ لوازمات اپنی وسعتوں کے ساتھ اس کے پاس موجود تھے۔ تبھی صفحوں کا الٹنا دنوں کو بدلتا دکھائی نہ دیتا تھا اور ’’اوٹو‘‘ کے لفظ ایک بے کار تسلی لگتے تھے۔
معیشت کی گاڑی کو دھکا دینے اور کالج کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے سڈنی کو خود میدان میں نکلنا پڑا۔ سڈنی نے ایک ہوٹل میں ہینگ مین کی معمولی سی نوکری تین ڈالر فی رات کے معاوضے پر قبول کی۔ اس آمدنی سے اس کا اسکول کا خرچ نکلنے لگا۔ تین بجے سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ ہوٹل کے لیے بس میں بیٹھ جاتا۔ جہاں سے واپسی کبھی آدھی رات اور کبھی صبحِ صادق کے قریب ممکن ہوتی اور اسے اگلے دن کے اسکول اور نوکری کے بغیر آرام کے نکلنا پڑتا۔ غربت اس کے دامن سے لپٹی تھی، مگر کچھ چیزیں اس کی طبیعت کا خاصا تھیں، جس کو قدرت نے کوٹ کوٹ کر اس میں بھر رکھا تھا جیسے ایک، اس کی سخت محنت کی عادت۔ سڈنی ہمیشہ اپنا ہرکام آرام کی لذت اٹھائے بغیر پورا کرتا۔ خواہ اس کے رستے میں کیسی ہی مشکلات اور کتنی ہی ناممکن رکاوٹیں کیوں نہ آجائیں اور دوسری، اس کا مواقع کے لیے کھلا دامن ماسوائے چند ایک اس کے ذہنی دباؤ کی زد میں آنے والے لمحات کے ، وہ کبھی کسی کام کی پیشکش کو انکار نہ کرتا، چاہے وہ کتنی ہی حقیر یا ناممکن کیوں نہ ہو اور نہ کسی بھی بہانے یا عذر کو اپنے اور کام کے بیچ مداخلت کرنے دیتا۔ وہ ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہونا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی زندگی میں اس کے بعد دنیا اسے جانے اور یاد رکھے ۔ سڈنی کو کوکاکولا بننا پسند نہ تھا ہزارون سا ایک! وہ ہزاروں میں ایک ہونا چاہتا تھا۔
ایک دن تنہائی نے کچھ موسیقی کی لہروں کو جنم دیا جن کو اُس نے ’’میری خاموش ہستی‘‘ کے لفظوں میں ڈھال لیا۔ اس گانے کو ہوٹل کے آکسٹرا میوزیشن کو دکھانے کی ہمت کی۔ ہینگ بوائے کا یہ گانا ہوٹل کے آکسٹرا سے سارے امریکہ میں سنا گیا اور ٹی وی چینلوں پر بہت عرصہ بجتا رہا۔
٭ ’’اگر میں ایک گانا ایسا لکھ سکتا ہوں، جو ایک بڑے موسیقار کو پسند آجائے، تو میں ایک درجن بھی لکھ سکتا ہوں!‘‘:۔ اور سڈنی نے ایک درجن گانے ایک موسیقار بننے کے تیار کیے اور نیویارک کے لیے روانہ ہوا۔ ایک طرف گھر کی ذمہ داریوں کا بھرپور احساس اور دوسری طرف خوب صورت مستقبل کے رنگین سپنے۔ فیصلہ سڈنی کرتا، تو شاید نیویارک جانا ملتوی کرکے ان تین چھوٹی نوکریوں میں جتا رہتا، جو ان کے گھر کے لیے بہت ضروری تھیں۔ ایسے وقت میں محلوں کے خواب دیکھنے والی ’’نیٹیلی‘‘ کو سڈنی کے ممکنہ سہانے مستقبل کی صورت رنگین خوابوں نے مرعوب کیا اور وہی سڈنی کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
٭ ’’ڈاک سے ملنے والے گانوں پر کوئی نظر بھی نہ ڈالے گا!‘‘:۔ بس پر سوار چار دن کا سفر طے کرکے سڈنی نیویارک پہنچا، تو اسے لگا کہ وہ ایک نئی دنیا میں آگیا ہے۔ نیویارک کی بلند و بالا عمارتوں اور پُررونق بازاروں کے سامنے شکاگو قدیم زمانہ اور بدرنگ لگنے لگا۔ دنیا بھر کے بہترین گلوکاروں اور موسیقاروں کے مرکز نیویارک میں قیام کی خاطر ایک تھیٹر میں چودہ ڈالر فی ہفتہ کے ساتھ دربان کی نوکری حاصل کی۔ نیویارک نے سڈنی کو قبولیتی کی سند بخش دی۔ شام اور رات میں تھیٹر کی ڈیوٹی کے ساتھ دنیا کی شہرۂ آفاق فلمیں دیکھتا اور دن بھر اپنے گانے لیے اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا، مگر کسی اسٹوڈیو کے "Reception” سے آگے نہ جاسکا۔ آہستہ آہستہ ان چکروں سے اُمید اور حوصلہ ٹوٹتا چلا گیا اور مایوسی بڑھتی گئی۔ کسی لمحے دل مستقبل کے دل نشین سپنے دیکھنے لگتا اور دوسرے ہی لمحے ناامیدی کے ڈھیر پر جا بیٹھتا۔ مزاج اور خیالات کے اُتار چڑھاؤ میں ایک دن ایک اسٹوڈیو مینیجر کی منت سماجت کرتے ایک مشہور گلوکار میکس رچ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’یہ تو بہترین نغمہ ہے!‘‘ نغمہ پسند کرکے اس نے سڈنی کو اگلے دن اپنے تمام نغمات کے ساتھ اسٹوڈیو آنے کو کہا۔ بالآخر سڈنی کی زندگی کا وہ خاص دن آگیا تھا جس کے حصول کی جد و جہد میں وہ بہت دنوں سے مصروف تھا۔ قسمت کی دیوی اس کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ساری رات مستقبل کے سہانے سپنوں نے سڈنی کو سونے نہ دیا اور صبح ہوتے ہی اس کا جوش بھرا حوصلہ کالے بادلوں کی زد میں آگیا۔
مَیں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ مَیں اس قابل نہیں ہوں کہ میکس رچ کے ساتھ کام کرسکوں۔ وہ تو صرف میرے ساتھ ہمدردی کررہا ہے۔ خوف زدہ حوصلے اور نوجوان خوابوں کی لگی ضربوں نے ناکامیوں کے تمغے کو سینے سے لگائے رکھنے کی عادت سی ڈال دی تھی۔ انجام آخرِکار یہ ہوا کہ جب میکس رچ اپنے دفتر میں سڈنی کا گانوں سمیت انتظار کررہا تھا، وہ بس میں بیٹھ کر شکاگو واپسی کے لیے روانہ ہوگیا۔ شاید اس دن سڈنی میکس رچ سے ملاقات کرلیتا، تو آج اس کا نام بڑے نغمہ نگاروں میں ہوتا۔ ایک کیرئیر جنم لینے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
سڈنی ساری عمر اپنے دماغ کے اُتار چڑھاؤ میں الجھا رہا۔ کبھی بغیر کسی وجہ کے پُرامید مسرت میں گم ہوجاتا اور کبھی سارے روشن شگُن اسے ایک دم اندھیرا لگنے لگتے۔ بہت بعد میں سڈنی جان سکا کہ مزاج کے اس اتار چڑھاؤ کی بنیادی وجہ ایک ناقابلِ علاج نفسیاتی عارضہ "Manic depression” تھا، جو دنیا کے اکثر ذہین دماغوں کو لاحق ہوتا ہے۔ ہر ذہانت اور قابلیت کی کچھ قیمت تو ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔
شکاگو میں بہت دنوں تک عامیانہ سی نوکریوں اور غیر ادبی کاموں میں خود کو مصروف رکھنا پہلے سے زیادہ مشکل ہوگیا، تو اس نے لاس اینجلس کے لیے سامان باندھا۔ ’’نیٹیلی‘‘ اور ’’اُوٹو‘‘ جو پچھلے ناکام تجربے سے خاصے حقیقت پسند ہوچکے تھے، انہوں نے بہ مشکل تین ہفتوں کے لیے جانے کی اجازت دی۔ اس شرط پر کہ اگر یہ کامیابی تین ہفتوں تک نہ ملی، تو وہ واپس لوٹ آئے گا۔
لاس اینجلس میں ایک سستے سے بورڈنگ ہاؤس میں، جہاں مصنف، گلوکار اور ایکٹر بننے کی خاطر آئے نوجوانوں کا ایک ہجوم اکٹھا تھا، میں رہائش کا انتظام کرکے سڈنی نے قریبی اسٹوڈیو کا رُخ کیا۔ اگلے تیزی سے ختم ہوتے دو ہفتوں میں وہ کسی بھی اسٹوڈیو کے مین ڈیسک سے آگے نہ بڑھ سکا۔ تیسرے ہفتے ’’اُوٹو‘‘ کی طرف سے بھیجا واپسی کا ٹکٹ ناکامی کی عفریت بن کر اس کے حواس پر سوار ہوگیا۔ آخری تین دنوں میں دوستوں سے اسٹوڈیو ریڈر کے بارے میں جانا جو ہر اسٹوڈیو میں ناول اور ڈراموں کے خلاصے تیار کرنے کے لیے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اس خبر سے سڈنی کی ڈوبتی سانسیں کچھ بحال ہوئیں۔ سڈنی نے راتوں رات ایک کتاب کا خلاصہ تیار کیا اور مختلف اسٹوڈیوز کو روانہ کردیا، اس آس میں کہ جلد ہی اسے کسی بڑے اسٹوڈیو سے مستقل نوکری کے لیے بلالیا جائے گا۔ یہ سڈنی کی بھول تھی کہ وہ کوئی بھی کام اتنی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود کہ صرف اس کے ساتھ بورڈنگ میں بہت سارے اسٹوڈیو داخلے کے شوقین موجود تھے اور عظیم ستارے بننے کی کوشش میں ناکام بیٹھے تھے۔
سڈنی کو صبح دس بجے ایک کال تو ضرور آئی…… مگر بہت کٹھن شرائط کے ساتھ۔ چار سو صفحات کی کتاب شام چھے بجے تک مطالعہ کے بعد اس کا 30 صفحات کا خلاصہ ٹائپ کرکے پہنچانا تھا۔ یقینی طور پر اس ناممکن کام کو قبول کرنے کا نہ صرف سڈنی نے وعدہ کیا بلکہ حقیقتاً اس ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔ کس طرح کیا……! یہ الگ مگر دلچسپ کہانی ہے…… مگر اتنی سخت اور ناممکن مہم کوکامیاب کرنے پر بھی وہ مستقل نوکری اسے نہ مل سکی۔ اور وہ دس ڈالر کا معاوضہ دے کر ریسیپشن سے لوٹا دیا گیا۔ ایک اور دروازہ کھلنے سے پہلے ہی بند ہوگیا، جس نے سڈنی کو شدید پریشانی اور مایوسی سے دوچار کیا…… مگر گھر واپسی سے بچنے کے لیے بہرحال یہ پراجیکٹ اس کے کام آیا اور اس اُمید افزا خبر کو سنتے ہی نیٹیلی نے سڈنی کو اپنا قیام طویل کرنے کی اجازت دے دی۔
نوکری تو نہ ملی…… مگر سڈنی کی پروفائل میں جلی حروف سے اس کیے گئے کام کا تذکرہ ضرور ہوا، جس سے ’’یونیورسل اسٹوڈیو‘‘ میں چودہ ڈالر فی ہفتہ کی نوکری ملنا آسان ہوگئی۔ کامیابی شاید دوڑ کر آپ کے پاس نہ آئے، مگر آپ کے مستقل اٹھائے چھوٹے چھوٹے قدم آپ کو کامیابی تک لے جاسکتے ہیں۔
ہفتہ وار چیک کی وصولی نے نہ صرف معاشی حالت بہتر کی بلکہ اس کے خوابوں کو نیا عزم بھی دیا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسٹوڈیو کی زندگی سے پہلے سے زیادہ پیار کرتا جہاں ساری دنیا کے لیے خواب تعمیر کیے جاتے ہیں۔ رائٹر بننے کی دُھن کچھ اور بے تاب ہوئی اور ناول لکھ کر اس اسٹوڈیو کو بیچنے کے ارادے میں کچھ اور اضافہ ہوتا گیا۔ ابھی ان خوابوں کی جڑیں زیادہ گہری نہ ہوئی تھیں کہ امریکہ میں پھیلے جنگ عظیم کے مشہور زمانہ ڈیپریشن کی وجہ سے یونیورسل اسٹوڈیو بک گیا اور سارا عملہ سڈنی سمیت بے کار ہوگیا۔ کچھ عرصہ آزادانہ طور پر مختلف اسٹوڈیو کے لیے لکھتے لکھتے اسے 20ویں سنچری فوکس میں پہلے سے بہتر معاوضہ پر ریڈر کی مستقل نوکری مل گئی۔ اسی دوران میں چوبیسویں سالگرہ پر سڈنی نے قریبی دوست رابرٹس کے تعاون سے چوبیس گھنٹے میں دو کہانیاں لکھیں اور پندرہ سو کے عوض دو مختلف اسٹوڈیوز کو فروخت کیں۔ بی کلاس فلمیں کم بجٹ کی چھوٹے پیمانے پر بنائی جانے والی فلمیں تھیں، جن کے چاہنے والے کچھ سستے قسم کے اسٹوڈیوز اور نچلے طبقے کے افراد دیکھنے والے تھے۔ شوبز کی دنیا اس کے اندر آنے کی جگہ دھیرے دھیرے بنائے جارہی تھی۔ اگلے دو سال وہ ریڈر کی نوکری چھوڑ کر بی کلاس فلمیں لکھنے میں مصروف رہا۔
جنگِ عظیم دوم کے دوران میں جب فوج میں ایمرجنسی بھرتیوں کا آغاز ہوا، تو جہاز اُڑانے کے شوق نے ’’سڈنی‘‘ کو بھی ائیر فورس میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور کردیا…… اور وہ اپنا کاغذ قلم لپیٹ کر ائیر فورس کی ٹرینگ کے لیے چلا گیا۔ یہ شعبہ اس کے مقدر میں نہ تھا، اس لیے سڈنی کامیاب ٹریننگ، بھرپور عزم اور اُڑنے کے جنون کے باوجود جنگی پرواز کے لیے نااہل قرار پایا۔
ائیر فورس سے برخاستی سے پہلے اس کے لکھنے کے ہنر کو کامیابیاں ملنے کا آغاز ہوا۔ نیویارک میں ائیر فورس سے چھٹیوں کے دوران میں ’’براڈوے‘‘ کا ایک شو لکھنے کی آفر ہوئی…… جسے اس نے اپنی عادت کے مطابق فوراً قبول کرلیا۔ ائیر فورس کی نوکری اور کم مہیا وقت کی وجہ سے ایک دوست کو بھی لکھنے میں ساتھ شریک کیا۔ جسمانی نقص کی بنا پر ائیر فورس سے بالآخر برخاست ہونے سے پہلے ہی ’’سڈنی‘‘ ایک وقت میں تین ڈرامے حاصل کرچکا تھا۔
چار اگست 1943ء کو سڈنی کا پہلا خوب صورت اور مدھر ڈراما "The merry widow” کا آغاز ہوا، جس نے ابتدا ہی سے اخباروں اور رسالوں میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ ایک ’’شان دار حیاتِ نو‘‘ اور ’’ہنستی ہوئی پیار کہانی‘‘ کہلانے والا یہ ڈراما جس کو قبول کرتے سڈنی کا دل خوف سے ڈوبنے لگا تھا اور دماغ خود کو یہ سمجھانے میں مصروفِ عمل ہوگیا تھا کہ وہ اس کام کا اہل نہیں…… تین سال تک سٹیج پر شہرت اور کامیابی سمیٹتا رہا۔
یکم جنوری 1944ء میں سڈنی کا دوسرا ڈراما "Jackpot” پیش کیا گیا…… جو فریڈلی فیکٹری کا ایک اور چھکا ثابت ہوا۔ دو سپرہٹ ڈرامے کرنے کے بعد اب سڈنی منتظر تھا کہ تیسرا اور چوتھا ڈراما بھی ’’بلاک بسٹر‘‘ ثابت ہو مگر آنکھوں کو خیرہ کرنے والے ملبوسات، بہترین اسکرپٹ اور مسحورکن رقص سے سجایا ڈراما ایک بدترین فلاپ ثابت ہوا۔
بعد ازاں چوتھا ڈراما بھی کوئی خاص جھنڈے نہ گاڑ سکا۔ براڈوے میں دو بلاک بسٹر ڈراموں کے بعد دو فلاپ ڈراموں نے سڈنی کو پھر انہیں تاریک احساسات میں دھکیل دیا اور اسے لگنے لگا کہ کامیابی قسمت کا ایک چھکا تھی…… ورنہ اس کے ہاتھ میں اہلیت اور قابلیت نام کا کوئی ہنر نہیں۔ دل برداشتہ ہوکر سڈنی نے ہالی ووڈ کی طرف کوچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
زردی مائل کاغذات کا ایک دستہ اور قلم لیے سڈنی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور خیالات پیدا کرنے، لکھنے اور صفحات پر اتارنے کی کوشش میں مگن ہوگیا۔ ناکامیوں کا بوجھ دماغ کو لاچار کیے دیتا تھا…… مگر کاغذ پر کاغذ پھاڑتے اور خیال پر خیال پرکھتے بالآخر سڈنی دو گھنٹوں میں تیس صفحات کا بنیادی مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔”It’s Suddenly Spring.” کا مسودہ ہاتھوں میں لیے سڈنی لاس اینجلس کے لیے روانہ ہوا۔
’’ہالی ووڈ‘‘ میں دوسری بار قدم دھرتے صحیح معنوں میں قسمت کی دیوی سڈنی شیلڈن پر جی جان سے ریجھ گئی۔ سڈنی کے مشہور ڈراموں کی شہرت سڈنی سے پہلے ہالی ووڈ پہنچ کر اس کو شناخت کے مرحلے سے گزار چکی تھی۔ ہالی ووڈ کے پچھلے دورے میں چودہ ڈالر فی ہفتہ کمانے والے سڈنی کو پہلے ہی روز ایک ہزار ڈالر فی ہفتہ پر اسکرپٹ لکھنے کی آفر ہوئی، جسے سڈنی نے بڑی کامیابی سے پورا کیا اور 30 صفحات کا مسودہ جو دو گھنٹے میں تیار کرکے وہ ساتھ لایا تھا۔ پینتیس ہزار ڈالر میں ’’سیلزنیک‘‘ کے ہاتھ بِکا…… جس کے لیے سڈنی نے کیرئیر کی شروعات میں سب سے پہلا اور مشکل خلاصا چار گھنٹے میں مکمل کیا تھا اور دس ڈالر کا لفافہ دے کر اسے اسٹوڈیو کے دروازے سے لوٹا دیا گیا تھا۔ بہترین سٹار کاسٹ کے ساتھ پیش کی گئی۔ یہ کامیڈی ’’بیچلر اینڈ دی بوبی سکسر‘‘ کے نام سے دنیا کے سب سے بڑے تھیٹر "Radio City Music” میں پیش کی گئی۔ سات ہفتوں تک پیش ہونے والی یہ فلم سڈنی کا بہت بڑا شاہکار، ریکارڈ ساز اور تاریخ کی سب سے زیادہ منافع بخش فلم ثابت ہوئی۔ اخباروں اور رسالوں نے تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ فلم کو ’’باکس آفس بلیوربن‘‘ ملا اور سڈنی شیلڈن کو ’’آسکر!‘‘
سڈنی جانتا تھا کہ اس کے خواب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ ہالی ووڈ میں کامیابیاں ایلی ویٹر کی طرح ہر وقت اوپر نیچے گردش رہتی ہیں…… مگر ہنر یہ ہے کہ یہ ایلی ویٹر نیچے جا کر نہ چھوڑا جائے۔
’’میرے لیے ایلی ویٹر اب اوپر تھا اور میں دنیا میں سب سے اوپر تھا۔‘‘
اپنا شاہکار پیش کرنے اور آسکر حاصل کرنے کے بعد سڈنی کے لیے کامیابی کے سب در کھل چکے تھے۔ صفحات اُلٹتے اُلٹتے وہ معجزوں سے بھرے اوراق پر پہنچ چکا تھا…… جو کامیابی کے چراغوں اور شہرت کی خوش بُو سے مہک رہے تھے۔
کامیابیوں کے عروج کو معجزہ قرار دینے والے ’’سڈنی شیلڈن‘‘ کی ہر کتاب ’’نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر‘‘ رہی اور 51 زبانوں میں ترجمہ ہوکر 180 سے زاید ملکوں میں بانٹی گئی۔ اس طرح سڈنی ان چند ایک لکھاریوں میں سے رہا جس کی کہانیاں بڑی تعداد میں ڈراما اور فلموں میں ڈھالی گئیں۔
ایک ’’آسکر‘‘ اور ’’ٹونی ایوارڈ‘‘ جیتنے والے سڈنی نے دوسو ٹی وی ڈراموں کے اسکرپٹ لکھے۔ 25 بڑی فلمیں، 6 براڈوے ، ڈرامے اور 18 ناول لکھے جن کی 300 ملین کاپیاں بک چکی ہیں اور وہ دنیا کا ساتواں بہترین کہانی کار سمجھا جاتا ہے۔
اگر یہ معجزہ ہے، تو اس کے پیچھے سڈنی کی ایک دہائی کی محنت، حوصلے کی مشقت اور لگن کی آزمائش برابر کی شریک ہے۔
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔