1969ء تک بلکہ دسمبر 1971ء تک سوات زندہ تھا۔ پھر اس پر ’’عوامی حکومت‘‘ کے نام پر ایک ایسی غیر شریفانہ حکومت لا بٹھائی گئی کہ ہر چھوٹا شخص بڑا بن گیا۔ نہ صرف بڑا بن گیا بلکہ گستاخ اور طاقتور بھی ہوگیا۔ ہمارے جاننے والوں میں (اگر چہ یہ خود ہماری نوجوانی کے دن تھے) ایک بہت ہی غلیظ ’’فٹ پاتیا تکہ فروش‘‘ بھی تھا۔ حکمران جماعت کا اہم آدمی…… شیر پاؤ (حیات محمد خان) جو خود ایک نوجوان ہی تھا، کو گورنر جیسا اہم اور سنجیدہ عہدہ تفویض کیا گیا تھا۔ جلانے کی لکڑی ریاستی دور والی کنٹرولر پالیسی کے تحت ملتی تھی جو یقینا تھوڑی مشکل تھی اور لوگ ریاستی دور کے بعد اپنی تاریخی خود سری چاہتے تھے۔ شیرپاؤ کا جلسہ عام گراسی گراؤنڈ مینگورہ میں جاری تھا۔ حیات محمد خان شیر پاؤ حسبِ عادت تقریر میں آسمان کے تارے توڑ رہے تھے کہ مبینہ طور پر تکہ فروش ماما اٹھے اور درخواست کی کہ جناب عوام کو جلانے کے لیے لکڑی نہیں ملتی، بڑی تکالیف ہیں۔ چوں کہ گورنر صاحب کی اپنی عمر گلی ڈنڈا کھیلنے والی تھی، اس لیے بجائے اس کے کہ وہ فریاد کو سنجیدگی سے نمٹاتے کمشنر اور فارسٹ آفس کو ٹاسک دیتے، نے جوش میں آکر کہا کہ یہ ارد گرد کے گھنے جنگلات کس کے ہیں؟ (یاد رہے اُس وقت تک ایلم، کوکارئی اور مینگورہ کے ارد گرد کے پہاڑ سر سبز پودوں، جنگلات اور جنگلی حیات سے بھرے پڑے تھے)۔ یہ عوام کے ہیں ان کو کاٹو اور اپنے چولہے جلاؤ۔ اس بچکانہ اجازت نے ایک دو سالوں میں پورے ملاکنڈ ڈویژن کی جنگلات کا ایسا صفایا کروا دیا کہ آج ہمارے بچے بے شمار مقامی اشجار اور حیوانات کے نام نہیں جانتے۔
ہزاروں سالوں سے سوات ایک متمدن علاقہ تھا۔ اس کی صنعت و حرفت اس کی زراعت، اس کے فنونِ لطیفہ مکمل طور پر اس کے اپنے تھے۔ یوسف زئیوں کے اس علاقے پر قابض ہونے سے یہاں کے کئی فنون ختم ہوگئیں، مثلاً سٹوپا بنانے اور ہندو مندر بنانے کا فن یہاں ناپید ہوگیا۔ اس وقت مردان روڈ پر بریکوٹ کے قریب ایک قدیم سٹوپا اپنے خراب حالت میں موجود ہے۔ چوں کہ سوات میں انتظامی استعداد بہت کم ہے، اس لیے محکمہ آثارِ قدیمہ، محکمہ اوقاف اور محکمہ ثقافت اور سیاحت کا محکمہ سب کے سب اس سٹوپا کی عمدہ حفاظت میں ناکام رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سٹوپا کے ارد گرد اک آدھ کلومیٹر کے علاقے کو حکومت خریدتی، وہاں ایک عمدہ پارک تعمیر کرواتی، قدیم تاریخ پر ایک انفارمیشن سنٹر تعمیر ہوتا، غیر مسلموں خصوصی طور پر بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے ایک عبادت گاہ بنائی جاتی، تو لوگ دیکھتے کہ بیرونی ممالک سے کتنے زائرین یہاں آتے۔ ریاستی دور میں یہاں مزروعہ زمینوں میوہ دار باغات اور سرسبز پہاڑ پارک کی ضرورت پوری کرتے تھے، لیکن اب انسانی آبادی کے جنگل اُگ آنے سے یہ قیمتی سٹوپا ایک محلے کے اندر مقید ہوگیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوگا اگر سٹوپا کے ارد گرد مذکورہ بالا پارک و غیرہ ’’ڈیولپ‘‘ کیا جائے۔

چارباغ کے درزی مختلف جیومیٹریکل اشکال ٹوپیوں پر بناتے تھے جو ملک اور بیرونِ ملک بہت عمدہ مارکیٹ رکھتی تھیں۔

سوات کی خواتین تلہ دار ٹوپیاں بنایا کرتی تھیں جن پر بیل بوٹے اتنی نفاست اور درستی کے ساتھ بنائے جاتے کہ دستکار خواتین پر تعلیم یافتہ آرٹسٹ کا گمان ہوتا جب کہ وہ مکمل طور پر اَن پڑھ ہوتی تھیں۔
چارباغ کے درزی مختلف جیومیٹریکل اشکال ٹوپیوں پر بناتے تھے جو ملک اور بیرونِ ملک بہت عمدہ مارکیٹ رکھتی تھیں۔ چارباغ ہی کے سنگتراش قبروں کے لیے منقش، کندہ شدہ لوح بناتے تھے، جو عموماً بیل بوٹوں اور پرندوں اور تتلیوں پر مبنی ہوتے تھے۔ بعض سنگتراش جنت کے موجودہ مناظر تراشتے تھے۔ یہ بھی مکمل طور پر اَن پڑھ لوگ ہوتے تھے۔ چارباغ سے اوپر کے علاقوں میں اسی قسم کے دستکار نرم لکڑی پر مختلف قسم کے بیل بوٹے بناتے تھے۔ وقت کے ساتھ لکڑی کے جنگلات ہوگئے، تو یہ فنکار بھی ختم ہوگئے، لیکن پتھر اور قبریں آج بھی موجود ہیں۔ ان کے دستکار تو ہونے چاہئیں۔ سنگوٹہ میں مٹی کے برتن بنانے کے ماہر رہتے تھے، وہ اب نہ رہے۔ قوانین سے انحراف اور مال کی محبت ایسی لعنت ہے، جس کی وجہ مسلمان ڈیڑھ ہزار سالوں سے ٹامک ٹویاں کھا رہے ہیں اور اب تو ہمارے یہاں وسیع پیمانے پر ایسا زر پرست ٹولہ سامنے آیا ہے جس کو اپنے آج کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
سوات میں مختلف سرکاری محکموں کو اربوں کے فنڈز مختلف ترقیاتی کاموں کے لیے ملے ہیں اور آج تک مل رہے ہیں، لیکن وہ روٹین کے کاموں کے نام پر ٹھیکیداری نظام اور کمیشن مافیا کی نذر ہو رہے ہیں۔ غالباً 2017ء کے بجٹ میں مختلف شہروں کے بناؤ سنگھار کے لیے ایک ایک ارب سے زیادہ رقوم ملی تھیں۔ مینگورہ کو بھی سنا تھا کہ ایک ارب سے زیادہ روپیہ ملا تھا۔ پی ٹی آئی سرکار نے مینگورہ سیدو شریف سے ’’پیرس‘‘ اور ’’لندن‘‘ بنا دیا۔ نالیوں کو بند کرکے فلشوں کے بدبودار پانی کو گلیوں اور سڑکوں پر بہنے دیا، تاکہ اگلے ٹھیکیدار اور کمیشن مافیا کا کاروبار چلتا رہے۔ شہر اور انسانوں کی بجائے برساتی نالوں اور قبرستانوں کو سجایا گیا، تاکہ دو نمبر کے تاجر اور سیاست کاروں کو وال چاکنگ کی سہولت ہو۔
جہانزیب کالج اور ریاستی دور کے ملیشا فورس کے قلعے اس علاقے کے فنِ تعمیر کے عجوبے تھے۔ معمولی ذہن کے کرسی نشینوں نے عمداً یا سہواً انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
جنگلات اور اُن سے وابستہ صنعتیں و حرفتیں معدوم ہوگئیں۔ روزمرہ زندگی والی ثقافتیں اور روایات دم توڑ گئیں۔ شادی ہالوں سے تو بہتر ہوتا کہ غیر ضروری اور مضر بھارتی اور پنجابی طریقے، شادیوں سے ختم کیے جاتے۔ حجرہ ہر جگہ ختم ہوگیا۔ یہ عموماً مشترکہ قطعۂ اراضی پر ہوا کرتا تھا اور عوام کے زیر استعمال ہوتا تھا۔ فنونِ لطیفہ میں اصلاحات کی جگہ اُن کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔ مقدس لوگوں نے معاشرے کو ایک ایسے طرف موڑ دیا، جہاں وادئی سوات کی کوئی انفرادیت نہ رہی۔ اسلام نے عقائد اور اعمال کو درست کیا ہے پر علاقے کی رسومات، لباس اور اقدار کو صرف ناگزیر حالت میں چھیڑا ہے، لیکن ہم اپنی ذاتی سوچ اور انا کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہیں۔ جس نے ہماری اجتماعی پہچان ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
آج کسی کالج کے بچے سے کوئی پوچھے کہ تمہاری علاقائی پہچان کی کون سی نشانیاں ہیں، تو وہ نوجوان خاموش ہی رہے گا۔ خدا اُن لوگوں کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت بدلنے کے خواہاں نہ ہوں۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔