(خصوصی رپورٹ) سوات میں قدیم اور ثقافتی طرز کے ہاتھ سے کندہ کیے گئے فرنیچر میں اب اہلِ سوات کے بعد ملک کے دیگر حصوں کے لوگوں اور غیر ملکیوں نے بھی دلچسپی دکھانا شروع کردیا۔ اب وہ بھی خریداری کرتے دیکھے جاتے ہیں۔
اس حوالہ سے مقامی ترکھان اکرام اللہ نے بتایا کہ فرنیچر پر کندہ کاری مکمل طور پر ان کے ہنر مند اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں۔ آرڈر پر ہر قسم کا فرنیچر تیار کیا جاتا ہے۔ کندہ کاری میں سواتی اور رومی ٹچ شامل ہوتا ہے۔
ایک اور ترکھان انور علی نے بتایا کہ اب تو لوگ جہیزکے لیے بھی کندہ کاری والے سیٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ بیڈ، صوفہ کرسی، میز کرسی، سنگھار میز، الماری، دروازے، ڈائننگ ٹیبل یہاں تک کہ آفس ٹیبل بھی اب لوگ آرڈر پر تیار کرواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا اپنا اپنا نرخ ہے لیکن جہیز کا مکمل سیٹ دو لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ روپے تک مل جایا کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب سوات آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاح بھی فرنیچر اور ڈیکوریشن پیس خرید کر اپنے ساتھ لے جایا کرتے ہیں۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سوات میں کندہ کاری کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ بدھ مت سے پہلے لوگ پتھروں پر کندہ کاری کیا کرتے تھے۔ کئی سو سال پہلے سوات میں مقامی لوگ لکڑی پر کندہ کاری کرتے تھے جس کی کچھ نشانیاں اب بھی پرانے حجروں، گھروں اور مساجد میں موجود ہیں، لیکن بعد میں یہ ثقافتی اثر آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا، لیکن اب لکڑی پر کندہ کاری کا کام دوبارہ شروع ہوگیا ہے جو لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اس حوالہ سے مقامی ہنر مندوں کا کہنا ہے کہ جو لکڑی استعمال میں لائی جاتی ہے، وہ کینیڈا اور ملیشیا سے برآمد کی جاتی ہے۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت مقامی لکڑی سے کم تھی، لیکن پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر میں اضافہ کی وجہ سے اب اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے فرنیچر کی قیمت پر بھی اثر پڑا ہے۔ باہر ممالک سے برآمد کردہ لکڑی کے فرنیچر پر ملک کے کسی بھی حصے میں لے جانے پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے اب اسے ملک کے کونے کونے میں لوگ خرید کر لے جایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر محمد وسیم کا کہنا ہے کہ برآمد شدہ لکڑی کے فرنیچر پر محکمۂ جنگلات کی جانب سے کوئی پابندی نہیں۔ لوگ اس کو خرید کر ملک کے کسی بھی حصے میں باآسانی لے جاسکتے ہیں۔