فطری حسن، تاریخی آثار اور پھلوں کا مسکن کہلانے والی وادی ’’سوات‘‘ میں میٹھے اور رس بھرے آلوچے ’’فضلِ منانئی‘‘ کی فصل تیار ہے۔ اس وقت ملک کے کونے کونے میں اس کو پہنچایا جا رہا ہے۔
زمین داروں کے مطابق سوات میں پانچ قسم آلوچے کی پیدوار ہوتی ہے جن میں ’’ارلی بیوٹی‘‘، ’’بیوٹی‘‘، ’’ریڈ بیوٹی‘‘، ’’آلو بخارا‘‘ اور ’’فضلِ منانئی‘‘ شامل ہیں۔
آلوچے کے باغ کے ایک مالک شفیع اللہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’فضل منانئی میں رس اور مٹھاس دونوں زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی عمر ایک ماہ تک ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ آلوچہ ملک کے کونے کونے میں پہنچتا ہے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال زمین دار کو قیمت اچھی مل رہی ہے۔ آلوچے کے ایک کریٹ میں چار کلو تک پھل آتا ہے جو مارکیٹ میں 6 سے 7 سو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ پورے ملک میں لوگ سوات کے اس آلوچے کو زیادہ خریدتے اور پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک کی کسی بھی منڈی میں پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا ہے۔‘‘
سوات میں دو ہزار ایکٹر پر آلوچے کی پیدوار ہوتی ہے۔ محکمۂ زراعت کے مطابق سوات میں سالانہ پانچ ہزار ٹن یا پچاس لاکھ کلوگرام آلوچے کی پیدوار ہوتی ہے جس سے سالانہ زمیند داروں کو 78 کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے۔
آلوچے کے دانے درختوں سے دو انگلیوں کے ذریعے توڑے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے آلوچے کے باغ میں کام کرنے والے شکیل احمد کہتے ہیں کہ آلوچے کو دو انگلیوں کی مدد سے اس لیے توڑا جاتا ہے کہ اس کے اوپر والی’’پشم‘‘ برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ جن آلوچوں پر قدرتی پشم ہوتی ہے، وہ مہنگے فروخت ہوتے ہیں اور جن پر پشم نہیں ہوتی، ان کی قیمت کم ہوتی ہے۔
محکمۂ زراعت سوات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عزیر کہتے ہیں کہ سوات کی یخ ہوا اور پانی کی وجہ سے سوات کے پھلوں اور خاص کر آلوچے میں رس اور مٹھاس زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کو پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے اس آلوچے سے مختلف کمپنیاں جیم تیار کرتی ہیں۔ آلوچے کا جیم بھی آلوچے ہی کی طرح پسند کیا جاتا ہے۔