رقص و سرود یا موسیقی اور رقاصی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کوئی موسیقی کو روح کی غذا گردانتا ہے، تو کوئی اسے گندگی و غلاظت۔ کوئی اسے شریعتِ اسلامی میں ممنوع مانتا ہے، تو کوئی اس کو طریقت میں جائز مانتا چلا آرہا ہے۔ اِن متضاد آرا کے باجود یہ ہر دور میں کسی نہ کسی صورت زندہ بھی رہی ہے اور اس کا وجود باقی بھی ہے۔ اس کا شمار فنون اور خاص کر فنونِ لطیفہ میں ہوتا ہے۔
اِس ضمن میں، سوات کے حوالے سے کئی ایک مغالطے پھیلائے گئے ہیں، جس کی وجہ سے کئی ایک غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اِن غلط فہمیوں اور مغالطوں میں سے ایک اہم یہ ہے کہ سوات میں اس کی سرپرستی ریاستِ سوات کے حکم ران میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب کے دور میں شروع ہوئی اور اُس کے دور میں مینگورہ میں محلہ بنڑ اِس کا مرکز بن گیا جو کہ ابھی تک چلا آرہا ہے۔
سوات میں موسیقی اور رقاصی کی تاریخ ریاستِ سوات کے دور سے پہلے کی ہے۔ ریاستی دور سے قبل سوات میں موسیقی کی مختلف اقسام رائج تھیں، جیسے کہ شپیلئی (بانسری)، ستار، پیانو، رباب، سریندہ (سارنگی)، بینجو، چوتارہ، منگے (مٹکا)، تمبل (دف)، ڈمامہ (نقارہ)، ڈولکے (چھوٹا ڈول)، سُرنے (نے)، باجہ (ہاتھ والا ہارمونیم)، بیم باجہ (گود میں لینے والہ ہارمونیم)، دُپڑئی (طبلہ) وغیرہ۔ اِن اشیا میں سے بعض صرف مردوں کے لیے مختص تھیں جب کہ بعض مرد اور عورت دونوں استعمال کرتے تھے۔ عام طور پر مرد موسیقی اور گانے بجانے کے عمل سے رات کو حجروں میں حِظ اٹھاتے تھے، جب کہ عورتیں شادی بیاہ، ختنوں، عیدین اور خوشی کے دوسرے مواقع پر گھروں میں اِن سے محظوظ ہوتی تھیں۔ اِن مواقع پر اِن کے یہ مذکورہ گانے بجانے والے پیشہ ور لوگ نہیں ہوتے تھے، بل کہ تفریحِ طبع اور خوشی کے اظہار کے لیے بلا معاوضہ شوقیہ یہ کام کرتے تھے۔
یہاں اِس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ سوات میں (بل کہ پختونخوا میں کوہاٹ سے شمال مغرب کی طرف واقع علاقوں میں) بہ حیثیت مجموعی مردوں کے ناچنے کا رواج نہیں تھا۔ اب بھی نہیں ہے۔ یہاں پر مردوں کا ایسا کوئی روایتی ناچ بھی نہیں تھا، اور بحیثیت مجموعی اب بھی نہیں ہے، جیسا کہ بعض پختون علاقوں میں ’’اَتنَڑ‘‘ ہے یا ’’خٹک ناچ‘‘ ہے۔ سوات کے پختون علاقوں میں مردوں میں صرف بدگان (جن کو ہجڑا یا اَب خواجہ سرا کہا جاتا ہے) ناچا کرتے تھے اور اب بھی ایسا کرتے ہیں۔ تاہم اب بعض یونی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل سوات سے تعلق رکھنے والے افراد، وزیرستان اور بلوچستان وغیرہ کے علاقوں کے طلبہ سے متاثر ہوکر، سوات میں اَتَنڑ کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، لیکن پختو کے اِس مقولے کے مصداق کہ ’’زاڑہ سپی نہ خکاریان کیگی‘‘ (یعنی عمر رسیدہ کتوں کو ہزار کوششوں کے باوجود شکاری نہیں بنایا جاسکتا) اُن کی یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو رہیں۔ ایسا کرتے وقت نہ تو وہ اَتَنڑ کرنے والے نظر آرہے ہوتے ہیں اور نہ ناچنے والے، بل کہ ایک مضحکہ خیز سا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ جو کہ شاید پختو کے اِس مقولے کے مصداق ہو کہ ’’کارغہ دَ خارو تلل ایزدہ کول نو خپل ترے ھیر شو او پہ ٹوپونو سر شو‘‘۔ اس کے لیے اُردو ضرب المثل ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول بیٹھا۔
تاہم سوات میں پرانے دور سے پیشہ ور موسیقار، گویے اور رقاصائیں موجود تھیں، جن کو شادی بیاہ اور ختنوں وغیرہ کے مواقع پر بلا کر رقص و سرود کی مجالس منعقد کی جاتی تھیں اور اِن مواقع پر اُن کو ایک طے شدہ رقم کی ادائی بھی کی جاتی تھی۔ دورانِ محفل بعض شائقین بھی اُن کو پیسے دیا کرتے تھے۔ یہ موسیقار اور رقاصائیں کسی ایک جگہ پر نہیں بلکہ پورے سوات کے مختلف علاقوں یا گاوؤں میں رہا کرتے تھے۔ اکثر وہاں کے کسی خان یا مَلَک وغیرہ کے حلقۂ اثر میں ہوتے تھے اور اُن کے لیے مجالس بھی منعقد کرتے تھے۔
ریاستِ سوات کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد بھی مختلف علاقوں میں رقاصاؤں، گوئیوں اور موسیقاروں کی موجودگی برقرار رہی، جس کی واضح مثال یا ثبوت بخت زیبا کا خاندان ہے۔ اِس بابت اختلافِ رائے پایا جاتا ہے کہ بخت زیبا کا خاندان بنیادی طور پر کہاں سے تعلق رکھتا تھا؟ بعض افراد کے نزدیک ان کا تعلق سوات ہی سے ہے، جب کہ بعض کے مطابق مردان سے ہے۔ اسی وجہ سے اُس کے خاندان کے زیادہ تر رشتہ دار اور رشتہ داریاں اب بھی مردان میں ہیں۔ (یاد رہے کہ بخت زیبا سے بعد میں حکم ران ریاستِ سوات میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب نے شادی کی۔ چوں کہ والی صاحب کی یہ دوسری شادی تھی، اِس وجہ سے اِس شادی کے بعد اُس کی پہلی بیوی کو ’’مشرہ بیگم‘‘ یا بڑی بیگم کے لقب سے اور اِس دوسری بیوی کو ’’کشرہ بیگم ‘‘ یعنی چھوٹی بیگم کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہاں اِس کا ذکر ضروری ہے کہ بعض لوگ بخت زیبا کو اُس کی موت تک والی صاحب کی بیگم کے طور پر یاد کرتے رہے اور اُس کی موت کی خبر کو بھی والی صاحب کی بیگم یا بیوہ کے طور پر بھی پھیلایا گیا۔ حالاں کہ عملی طور پر ایسا نہیں تھا۔ اِس لیے کہ والی صاحب کی وفات کے بعد، بعد میں اُس نے والی صاحب کے ایک ماموں زاد سے دوسری شادی کی تھی اور پاسپورٹ میں شوہر کا نام بھی تبدیل کیا تھا۔ لہٰذا دوسری شادی کے بعد وہ والی صاحب کی بیگم اور بیوہ نہیں رہی تھی۔)
ان میں بعض لوگ ایسے تھے جو آبائی طور پر پیشے کے لحاظ سے میراثیوں یا رقاص، گوئیوں اور موسیقار وغیرہ خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے، لیکن بعد میں مختلف وجوہات یا مجبوریوں کی وجہ سے یہ پیشے اختیار کیے۔ اس طرح کی صورتِ حال کو درجِ ذیل ٹپہ میں بیان کیا گیا ہے:
زہ خو د زایہ ڈمہ نہ ووم
قسمت کنجریٔ کڑم پہ حجرو مے گرزوینہ
مطلب یہ کہ مَیں تو خاندانی طور پر رقاصہ نہیں تھی، لیکن قسمت نے رقاصہ بناکر رقص کی خاطر حجروں میں پھرا دیا۔
تاہم جب اِس دوران میں مینگورہ ریاستِ سوات میں ایک مرکزی اور تجارتی شہر کے طور پر اُبھرنے لگا، تو زیادہ تر رقاصائیں، گلوکارائیں اور موسیقار مینگورہ منتقل ہوگئے اور محلہ بَنڑ میں سکونت اختیار کی۔ اِس وجہ سے مینگورہ کے محلہ بَنڑ کی پہچان ڈمانو (رقص کے پیشے سے منسلک مرد و خواتین)، گلو کاراؤں اور موسیقاروں کے محلے اور مرکز کے طور پر ہونے لگی۔ بنڑ منتقل ہونے اور یہاں پر مستقل سکونت اختیار کرنے والی رقاصاؤں، گلوکاراؤں اور موسیقاروں میں سے سوات کے دوسرے علاقوں سے آنے والوں کے علاوہ سوات سے باہر کے علاقوں جیسا کہ مردان وغیرہ سے بھی آکر یہاں پر سکونت پذیر ہوئے۔
فضل رازق شہابؔ صاحب کے بہ قول ریاستِ سوات کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ہر قسم کے موقع پرست جن میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل تھے، سوات آکر مستقل طور پر سکونت پذیر ہوئے جن میں ڈمان یعنی رقص و سرود کے پیشے سے منسلک مرد و خواتین بھی شامل تھے۔
اگرچہ ریاستِ سوات کے دور میں رقص و سرود یا ناچ گانے اور موسیقی کی ریاستی سرپرستی اور ترویج کو حکم رانِ ریاستِ سوات میاں گل جہان زیب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن اِس کی ابتدا اُس کے دورِ حکم رانی سے قبل اُس کے والد اور پیش رو میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب کے دورِ حکم رانی میں ہوئی تھی۔ باچا صاحب کھلم کھلا موسیقی اور رقاصی کی محافل کے منعقد کرنے سے اجتناب برتتا تھا، لیکن اُس کے ایک قریبی کاردار نے 1998ء میں (میری پی ایچ ڈی کے لیے اُس سے انٹرویو کے دوران میں) مجھے بتایا تھا کہ باچا صاحب ذاتی طور پر رازداری میں رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ اِس کی خاطر اُس نے صوابی سے تعلق رکھنے والی ایک رقاصہ اور گویے کو مختص رکھا ہوا تھا جس کو باچا صاحب ریاستِ سوات کے ایک نوکر کی تنخواہ کے برابر باقاعدگی سے مستقل طور پر ادائی کیا کرتا تھا۔
علاوہ ازیں شہاب صاحب کے مطابق دیر سے باچا ہلال، مردان سے اُس کی بہن چشتی چمن جان اور مردان ہی سے باچا زرین جان بھی باچا صاحب کے دور کی وہ رقاصائیں اور گلوکارائیں تھیں، جن کی محفلِ رقص و سرود اور گانے بجانے سے باچا صاحب لطف اندوز ہوتا رہتا تھا۔
نہ صرف یہ بلکہ ریاستِ سوات کی محفوظ رہ جانی والی سرکاری دستاویزات میں بھی باچا صاحب کے دورِ حکم رانی سے تعلق رکھنے والی ایسی دستاویزات اور شواہد ملتے ہیں، جو اِس کا ثبوت ہیں کہ اُس کے دورِ حکم رانی میں اِس حوالے سے کچھ اُصول و ضوابط وضع کرنے اور حدود و قیود مقرر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر کتاب نمبر 74، از مورخہ 21 اگست 1935ء تا 2 جولائی 1940ء میں موجود اقرار نامہ جات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
اِن میں سے 21 مئی 1937ء کو تحریر کردہ اقرار نامے میں درج ہے کہ باعثِ تحریر آں کہ مینگورہ سے تعلق رکھنے والا مَیں عمر سید ڈم یہ اقرار کرتا ہوں کہ میری دو بیویاں مسماۃ ایمون اور مسماۃ لاھورہ ہیں۔ اِن کی بابت مَیں اِس بات کی دو ہزار روپے کی ضمانت دیتا ہوں کہ اگر میرے ہاتھ سے میری بیویوں کو کوئی نقصان پہنچا، تو مَیں حکومت کو جرمانے کی ادائی کے علاوہ اِس زرِ ضمانت کی ادائی بھی کروں گا۔اگر میری اِن بیویوں کو میرے ہاتھوں سے کسی تکلیف پہنچنے کا ثبوت مل گیا، تو اُس کے بعد مَیں قابل سزا اور جرمانہ ہوگا۔ مَیں اِن کی روٹی، کپڑوں اور دوسری ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتا رہوں گا۔ اور اگر مَیں نے کھانے اور کپڑوں میں کوئی کمی لائی، تو مَیں پچیس روپے جرمانہ ادا کروں گا۔یہ چند باتیں مَیں نے درجِ ذیل گواہوں کی موجودگی میں تحریر کیں، تاکہ آیندہ زمانے میں کام آئیں۔ بس!
اِس اقرار نامے پر عمر سید ڈم نے نشان انگوٹھا ثبت کیا ہے۔ اِسے ماسٹر مظفر حسین ضبطِ تحریر میں لایا ہے۔ اور اِس پر گواہان کے نام عبدالغفور صاحب الحق( موضع شالپین)، عبدالرشید ڈم (مینگورہ) اور گل ریمن درج ہیں۔
اِس حوالے سے اِسی کتاب میں سے یہ اقرار نامہ بھی اہم ہے جس میں تحریر ہے کہ ہم شکور اور عمر گل دونوں اقرار کرتے ہیں کہ ہم دونوں نے چھے سال کے لیے جوڑا داری کی (یعنی یہ کہ ہم چھے سال تک ایک ساتھ محفل رقص وسرود کریں گے)۔ اگر فریقین کے مابین، ہم میں سے کوئی بھی میعادِ مقررہ سے قبل یہ جوڑا داری ختم کر رہا تھا، تو پانچ روپے جرمانہ ادا کرے گا۔ اِس پانچ روپے جرمانہ میں سے دو روپے جوڑی دار یعنی فریقِ دوم کا اور تین روپے سرکار کا حصہ ہے۔ اقرار نامہ تحریر کیا گیا، تاکہ کام آجائے۔
یہ اقرار نامہ 8 شعبان 1356 ہجری (بہ مطابق 14 اکتوبر 1937ء) کو تحریر کیا گیا ہے اور اِس پر شکور اور عمر گل کا نشانِ انگوٹھا ثبت ہے۔
یاد رہے کہ جوڑا ایک یا دو رقاصاؤں اور اُن کے ساتھ سازندوں کو کہا جاتا تھا۔ اُسی دور میں اِس کو ’’ڈَلہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا اور آج کل اِسے پارٹی کہا جاتا ہے۔ اگر اِس میں دونوں رقاصائیں ایک ہی گھر سے تعلق رکھتی تھیں، تو یہ ایک جوڑا ہی گِنا اور سمجھا جاتا تھا اور اگر دونوں رقاصائیں علاحدہ علاحدہ گھروں سے تعلق رکھتی تھیں، تو پھر دو جوڑے ہی حساب کیے جاتے تھے۔ رقاصہ اگر غیر شادی شدہ ہوتی، تو اُس کے والد کو طائفہ دار کہا جاتا تھا اور اگر وہ شادی شدہ ہوتی، تو اُس کے شوہر کو طائفہ دار کہا جاتا تھا۔
باچا صاحب کے دورِ حکم رانی میں رقص و سرود اور رقاصاؤں اور موسیقاروں کے اُمور اور اُن کے مابین کاروباری شراکت داری کے اُصولوں کو بھی باقاعدہ طور پر اُستوار کرنے اور انھیں قواعد و ضوابط کے تابع کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اِس ضمن میں محولہ بالا کتاب میں 22 جون 1940ء کی یہ دستاویز بڑی اہمیت کی حامل ہے، جس میں تحریر ہے کہ ہم مینگورہ کے سب ڈمان (رقص و سرود کرنے اور گانے بجانے والے) اقرار کرتے ہیں کہ ہم سب عمر سید پر متفق ہوئے اور وہ ہمارا سربراہ ہے۔ ہم عمر سید کو سالانہ ایک روپے نقد چندہ سربراہی کا ادا کریں گے۔ اور اِس ادائی میں کوئی عذر نہیں ہوگا۔ اگر ہم میں سے کسی نے اِس قاعدے کی خلاف ورزی کی تو وہ مجرم ہے۔
دوسری بات یہ کہ خادی (یعنی شادی اور ختنہ وغیرہ) کے موقع پر میدانِ رقص و سرود میں جو انعامی رقم آئے گی، تو اُس میں سے ایک حصہ (یعنی 40 فی صد) سازندوں کا ہوگا اور ڈیڑھ حصہ (یعنی 60 فی صد) رقاصہ کا ہوگا۔ مزید یہ کہ چکائی کی رقم میں سے دو تہائی رقاصاؤں کی ہوگی اور ایک تہائی سازندوں کی۔ ہم سب ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شریک ہوں گے یعنی ’’کلویغی‘‘ لازمی کریں گے۔ کوئی دس روپے سے کم پر خادی (شادی اور ختنہ وغیرہ) کے موقع پر رقص و سرود کی محفل کی خاطر نہیں جائے گا۔ اگر کسی پر اِس قاعدے کی خلاف ورزی ثابت ہوئی، تو حکومت اُس سے پچیس روپے جرمانہ لے گی۔ سربراہی کی مدت دو سال ہے۔ تلۂ یعنی جانے کی بخشش آزاد ہے (یعنی اگر کوئی رقاصاؤں کو محفل کی خاطر لے جانے کے لیے بخشش کے طور پر رقم ادا کرے، تو اُس کے لینے پر پابندی نہیں)۔ اِس اقرار نامے پر بہ طور اقرار کرنے والوں کے اِن افراد کا نشانِ انگوٹھا ثبت ہے۔ عمر سید، سوداگر، گل حسن، امیر نواب، میر سزن، مسافر، سیف الرحمان، قیصر، خائستہ، غلام سید، کریم اللہ، شرف گل، عزت شاہ، فضل غنی اور جمعہ گل۔
’’چکائی‘‘ اُس مقررہ یا مخصوص نقد رقم کو کہا جاتا تھا جس کی رقاصاؤں کو ادائی کی بات محفلِ موسیقی کے لیے لے جانے سے قبل اُن افراد کے ساتھ پکی کی جاتی تھی، جو اُن کو محفلِ موسیقی کے لیے لے جاتے تھے۔ اِس رقم کی ادائی لازمی تھی۔ جب کہ اگر رقص و سرود کی محفل کے وقت میدانِ رقص و سرود میں تماشائیوں اور اِس محفل سے محظوظ ہونے والوں میں سے کوئی بھی فرد کوئی رقم کسی بھی شکل یا صورت میں یا طریقے سے دے دیتا تھا، تو اُسے ’’انعام‘‘ کی رقم کہا جاتا تھا۔ ’’انعام‘‘ اور ’’بخشش‘‘ ایک ہی ہے۔ ’’سایہ‘‘ یعنی ’’چکائی‘‘ کی رقم میں پہلے سے (یعنی ایڈوانس میں) کچھ رقم کی ادائی ’’چکائی‘‘ میں حساب ہوتی تھی۔ ’’سایہ‘‘ کو اب ’’بیعانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اِس مضمون کے لیے ایک گفت گو کے دوران میں رقص کے پیشے سے منسلک مینگورہ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے باچا صاحب کے دورِ حکومت کے محولہ بالا تحریری دستورالعمل کی یہ کہتے ہوئے نفی کی کہ ’’چکائی‘‘ اور ’’انعام‘‘ کی رقم کی تقسیم اس اقرار نامے یا دستور العمل میں درج شدہ تناسب سے نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ ہر بندے کا فی نفر ایک جیسا حصہ تھا۔ خواہ وہ سازندے تھے یا رقاصائیں، اور رقاصہ یا رقاصاؤں کا والد یا شوہر وغیرہ۔ علاوہ ازیں اُس نے یہ دعوا بھی کیا کہ ریاستِ سوات کے دور میں میدانِ رقص و سرود میں بخشش یا انعام کے طور پر رقاصاؤں کو کسی بھی صورت یا شکل میں پیسے دینا ممنوع تھا۔ اور ایسا کرنے کی صورت میں پیسے دینے اور لینے والے دونوں کو ریاست کی طرف سے جرمانہ کیا جاتا تھا۔
تاہم درجِ بالا تحریری اقرار نامے یا دستورا لعمل سے واضح ہے کہ باچا صاحب کے دورِ حکم رانی میں اِس کی ممانعت یا اِس پر جرمانہ نہیں تھا۔ اگر بعد میں والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں ایسا کوئی حکم نامہ جاری کیا گیا ہو، تو وہ میری نظر سے گزرا ہوا مجھے یاد نہیں۔ تاہم فضل رازق شہاب صاحب کے مطابق چوں کہ اُس وقت سوات کے اکثر لوگ غریب تھے، لہٰذا وہ رقص و سرود کی محافل سے محظوظ تو ہوتے تھے، لیکن بخشش یا انعام کی صورت میں رقم دینے سے پہلو تہی کرتے تھے۔ شہاب صاحب کے بہ قول ریاستِ سوات کے خاتمے کے بعد بعض ڈم اور اُن کی رقصائیں صرف میدانِ رقص و سرود میں ملنے والے پیسوں پر ہی محافل منعقد کرنے کے لیے جاتے تھے، یعنی یہ کہ چکائی کے پیسوں کا مطالبہ نہیں کرتے تھے اور صرف اِس پر راضی ہوتے کہ میدان میں ملنے والی بخشش یا انعام کی رقم اُن کی ہوگی۔
12 دسمبر 1949ء کو باچا صاحب کی اپنے بیٹے اور ولی عہد میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب کے حق میں اقتدار سے دست برداری اور والی صاحب کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد والی صاحب نے رقص و سرود اور مطربوں، رقاصاؤں اور موسیقاروں کے ضمن میں اگر ایک طرف اُن کی سرپرستی کی، تو دوسری طرف ایسے احکامات جاری کیے اور حدود و قیود مقرر کیں، جو اِس ضمن میں مختلف پہلو کا احاطہ کرتے تھے، اور حتی المقدور کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اِس ضمن میں رقاصاؤں کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کے بندوبست کی خاطر متعلقہ افراد سے ضمانت و اقرار نامے لیے جاتے تھے، جن پر ضمانت کرنے والے کے علاوہ گواہوں کے دستخط ثبت کیے جاتے تھے اور والی صاحب بھی اُن کو دستخط کرتے تھے۔
مثال کے طور پر ضلعی محافظ خانہ سوات میں ریاستِ سوات کے دور کی کتاب نمبر 5، رجسٹر ضمانت دفتر حضور، از 19 فروری 1958ء تا 8 نومبر 1965ء، میں اقرار نامہ نمبر 85، مورخہ 18 جون 1960ء، میں تحریر ہے کہ میں نئیروز خان کپتان، موضع اوڈیگرام، بہ عقل و ہوش اقرار کرتا ہوں کہ کچکول ملک، موضع رستم، اپنے بیٹے کی شادی کی خاطر خارونی [خاروگی] کا جوڑا (دو رقاصاؤں کا جوڑا) مجلسِ رقص و سرود کی خاطر رستم لے جا رہا ہے۔ اگر خارونی [خاروگی] کے جوڑے کو کسی قسم کا جانی، مالی اور بے عزتی کا نقصان پہنچا، تو مَیں حکومتِ عالیہ کی ہر قسم کی سزا کا مستجب ہوگا۔ بہ طور یادِداشت تحریراً لکھ کے دیتا ہوں۔
اِس اقرار نامے پر اقرار نامہ دینے والے، گواہ اور حکم ران ریاستِ سوات کے دستخط ثبت ہیں۔
مذکورہ کتاب میں اِسی طرح کے ایک دوسرے اقرار نامہ نمبر 286، مورخہ 26 مارچ 1963ء، میں درج ہے کہ میں شیر افضل ولد تانیگل موضع سیدو شریف اقرار کرتا ہوں اور لکھ کے دیتا ہوں کہ سید ارشاد احمد موضع بٹگرام، چارسدہ، اپنی خادی (شادی کی تقریب) کے لیے مینگورہ کے زوبیر (زبیر) اور بخت زرین [بخت زمین] کے جوڑے مورخہ 5 اپریل 1963ء کو اپنے ساتھ سوات سے باہر والے علاقے کو لے جا رہے ہیں۔ اگر اِن کو سوات سے باہر کوئی نقصان پہنچا، تو حکومت کے ہر قسم جرمانے کا مَیں ذمے دار ہوں گا۔
اِس اقرار نامے پر اقرار نامہ دینے والے، گواہ اور حکم رانِ ریاستِ سوات کے دستخط ثبت ہیں۔ یاد رہے کہ اِن جوڑوں کی سوات سے باہر لے جانے کی یہ میعاد 26 مارچ 1963ء سے 9 اپریل 1963ء تک درج ہے۔
جب کہ دوسری طرف محفلِ رقص و سرود کی خاطر سوات سے باہر جانے والے ڈم اور رقاصاؤں سے اقرار نامے لیے گئے ہیں کہ وہ سوات سے باہر کسی قسم کی خلافِ قانون کارروائی نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر کتابِ مذکورہ بالا، کتاب نمبر 5، میں اقرار نامہ نمبر 320، مورخہ 3 ستمبر 1963ء، میں مذکور ہے کہ مَیں مینگورہ سے تعلق رکھنے والا پشمین اقرار کرتا ہوں اور لکھ کے دیتا ہوں کہ مینگورہ کے خاروگی مطرب کا جوڑا، موضع زیدہ کے اسماعیل کے ساتھ شادی کی تقریب کے لیے جاتا ہے۔ اگر اِنھوں نے کسی بھی قسم کی خلافِ قانون کارروائی کی، تو مَیں اِس جرم کا ذمے دار ہوں گا۔
اِس اقرار نامہ پر اقرار نامہ دینے والے، گواہ اور حکم رانِ ریاستِ سوات کے دستخط ثبت ہیں۔
رواج نامۂ سوات میں درج، 5 نومبر 1959ء کے ایک حکم نامے کے مطابق ختنہ کے موقع پر خواتین گھر کے اندر ہی صرف دف بجا سکتی ہیں۔اگر دف بجانے کے علاوہ او ر کسی قسم کی محفلِ موسیقی کا انتظام گھر کے اندرکیا گیا اورحکم ران کی طرف سے مرد و زن مہمانوں کے متعین تعداد سے زیادہ مہمان مدعو کیے گئے، تو گھر کے مالک کو 500 روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
علاوہ ازیں والی صاحب کے ایک شائع شدہ حکم نامے، جس پر ہاتھ سے لکھا ہوا نمبر 16 اور تاریخ 6 جنوری 1960ء رقم ہیں، میں مختلف اُمور سے متعلق مذکور آٹھ احکامات یا شقوں میں سے پانچویں حکم یا شق کے مطابق ختنوں کی خوشی کے مواقع پر اگر کوئی گھر کے اندر ’’ڈمامے‘‘ (نقارے یا ڈھول) بجاتا ہے، تو اِس کی اجازت ہے۔ تاہم گھر سے باہر تماشے یعنی محافلِ رقص و سرود کا اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ جس کسی نے بھی ایسا کیا (یعنی گھر سے باہر محفلِ رقص و سرود کا انعقاد کیا) تو وہ 200 روپے جرمانہ ادا کرے گا۔
اِس طرح والی صاحب کے ایک دوسرے شائع شدہ حکم نامے، نمبر 38، مورخہ 10 اکتوبر 1961ء، میں مذکور تین احکامات یا نِکات میں سے تیسرا حکم یا نکتہ یہ ہے کہ ختنہ کی خوشی کے موقع پر پیشہ ور افراد (مرد اور عورتیں دونوں )گھروں کے اندر مجلسِ رقص و سرود اور موسیقی نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ اِن خواتین رقاصاؤں اور گلوکاراؤں میں سے بعض ایسی بھی تھیں، جو صرف گھر کی چار دیواری کے اندر عورتوں کے لیے مجالس کیا کرتی تھیں۔ گھروں سے باہر حجروں وغیرہ میں مردوں کے لیے نہیں۔
والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں عیدین کے مواقع پر دریائے سوات کے کنارے موجودہ پولیس ٹریننگ اسکول کے مقام پر، جسے اُن دِنوں چناران کے نام سے جانا اور یاد کیا جاتا تھا، میلہ میں ناچ گانے اور موسیقی کی محافل منعقد کی جاتی تھیں۔ فضل رازق شہاب صاحب کے بہ قول اِن محافل کی خاطر مردان اور سوات سے باہر کے دوسرے علاقوں سے بھی ڈم، رقاصائیں اور اُن کے ساتھ سازندے وغیرہ سوات آتے اور مذکورہ موجودہ پولیس ٹریننگ اسکول یا چنارانو کی جگہ میں تمبو لگا کر قیام پذیر ہوتے تھے۔ اور 5 جون کو والی صاحب کے یومِ پیدایش کی مناسبت سے منعقد ہونے والے رقص و سرود کے پروگراموں میں رقاصائیں مینگورہ کے نشاط چوک میں بھی رقص و سرود کی مجالس کیا کرتی تھیں اور سید انور صوبیدار کے دیرہ میں بھی۔ سید انور صوبیدار گلو کارائیں کشور سلطانہ، گلنار بیگم اور نسیم اختر کو محفلِ موسیقی کے لیے بلا لیتے۔
گلنار بیگم چوں کہ پردہ کی سخت پابند تھی۔ لہٰذا وہ گھر کے اندر سے گیت گاتی تھی، جو باہر موجود سامعین لاؤڈ اسپیکر پر سنتے تھے۔ کشور سلطانہ کانی (ایک آنکھ سے اندھی) تھی (اس وجہ سے وہ کالے چشمے استعمال کرتی تھی) لہٰذا وہ کمرے کے اندر سے گانا گاتی تھی اور اُس کے ساتھ والے سازندے باہر ہی ساز بجا کر مجلس منعقد کرتے تھے۔
اُن دِنوں مفید النساء نامی رقاصہ سوات کے لوگوں میں بہت شہرت رکھتی تھی۔ وہ اور اُس کے ساتھ والے سازندے چنارانو کے بالمقابل موجودہ نوے کلے اسکول کی جگہ پر تمبو لگا کر قیام پذیر ہوتے تھے اور چنارانو میں مجالس منعقد کیا کرتے تھے۔
رقص کے پیشے سے منسلک مینگورہ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے مطابق ریاستِ سوات کے دور میں اِس پیشے سے وابستہ افراد مالی لحاظ سے آسودہ حال نہیں تھے۔ لہٰذا شادی بیاہ وغیرہ کے سیزن نہ ہونے کی صورت میں اِس پیشے سے منسلک افراد صرف چائے روٹی کے حصول کی خاطر اپنے آلاتِ موسیقی لے کر دور دراز مقامات پر ایسے افراد یا سرکاری اہل کاروں کے ہاں بن بلائے جاتے تھے، جہاں سے اُنھیں اپنی محفل کے صلے میں چائے روٹی وغیرہ ملنے کی توقع ہوتی تھی۔
اِس سے فضل رازق شہاب صاحب کے پہلے ہی ذکر شدہ اِس بات کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے کہ اُس وقت سوات کے اکثر لوگ غریب تھے۔ لہٰذا وہ رقص و سرود کی محافل سے محظوظ تو ہوتے تھے، لیکن بخشش یا انعام کی صورت میں رقم دینے سے پہلو تہی کرتے تھے۔
ریاستِ سوات کے دور میں مینگورہ کی مشہور رقاصائیں جان یا جان بی بی، محبوبہ، گل حریٔ، امینہ یا بخت مینہ، پکھراج، الماس، اقبال، زیبا، نرگس، ممتاز، اجمینہ، گلناز، مینو، خارو، گل سباؤن اور شینوگئی تھیں۔ فضل رازق شہاب صاحب کے بہ قول والی صاحب کے دورِ حکم رانی کی ایک رقاصہ چینئی کے نام سے مشہور تھی۔ پتا نہیں کہ اُس کا اپنا اصل نام کیا تھا، لیکن شکل میں چینیوں سے مشابہت کی وجہ سے چینئی کے نام سے مشہور ہوئی۔ وہ انتہائی حسین تھی اور لوگ اُسے مجالس کے لیے لے جاتے تھے۔
سوات میں ریاستِ سوات کے دور کے مرد موسیقاروں اور گلوکاروں میں شیرین شاخیل اپنا ایک نام اور مقام رکھتا تھا۔ وہ ہارمونیم بھی بجاتا تھا اور گانے بھی گاتا تھا اور اِس طرح محافلِ موسیقی منعقد کیا کرتا تھا۔ تاہم بعد میں وہ یہ کام چھوڑ کر درزی بن گیا۔ اس کے علاوہ ہارمونیم نوازوں میں بخت زمین اور مینے، طبلہ نوازوں میں فروش اور ’’دوپڑی ماروں‘‘ میں اسلام الدین مشہور تھے۔
ریاستِ سوات کے بعد کے دور کی مشہور رقاصاؤں میں نور جہان اور سیراجہ تھیں، جب کہ بعد کی گلوکاراؤں اور رقاصاؤں میں نازیہ اقبال، سعدیہ شاہ، غزالہ جاوید، عظمیٰ فیاض، گلالئی فیاض، فیاض مسکان، ثنا خان، اور نیلو شامل ہیں۔ (شوکت علی، ہسٹاریکل، پولی ٹیکل، سوشل، اینڈ اکنامک پرسپیکٹیوز آف مینگورہ (1969۔2017ء)، بی ایس تھیسز، ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہان زیب کالج، سیدو شریف، 2018ء، کے صفحات 35 اور 36 بھی ملاحظہ ہوں۔)
1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں ایک دور ایسا بھی تھا جس میں رقص اور گلوکاری کی دنیا میں سوات کے مدین سے تعلق رکھنے والے بدگ (ہیجڑا یا خواجہ سرا) اکبر علی کا ڈنکا بج رہا تھا اور شادی بیاہ کے مواقع پر اُس کی محفلیں خواتین رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کی محفلوں کو مات دیا کرتی تھیں۔ اور اُس کی محافل میں خواتین رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کی محافل سے زیادہ تماشائی ہوا کرتے تھے۔
سوات میں طالبان کے دورِ عروج میں رقص و سرود، موسیقی اور گلوکاری پر قدغنیں لگ گئیں اور اِس وجہ سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ تاہم اِس دوران میں بھی رقاصائیں مینگورہ ہی میں موجود رہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ مینگورہ سے تعلق رکھنے والی مشہور رقاصہ شبانہ کو یکم اور 2 جنوری 2009ء کی درمیانی رات کو گھر سے لا کے محلہ بَنڑ سے ملحق گرین چوک میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
دل چسپ اور شاید بعض لوگوں کے لیے حیران کن بات یہ ہے کہ اگلے یعنی 2 اور 3 جنوری کی درمیانی رات کو طالبان راہ نما شاہ دوران نے نمازِ عشا کے بعد اپنی ایف ایم ریڈیو تقریر میں شبانہ کو قتل کرنے کا سبب اُس کا رقاصہ ہونا نہیں بلکہ یہ بتایا کہ اُس نے رستم (ضلع صوابی) میں ایک محفلِ موسیقی کے موقع پر طالبان کے لیے یہ بد دعا کی تھی کہ اللہ طالبان کو غرق کرے۔ اُنھوں نے ہمارے کاروبار کو خراب کیا ہے۔ اِس حوالے سے شاہ دوران کی پوری بات جو مَیں نے اُس کی تقریر سے نوٹ کی تھی، کچھ یوں ہے کہ مینگورہ میں ایک رقاصہ تھی جس کا نام شبانہ تھا۔ اللہ اُسے جہنم میں بھون دے۔ بعض ڈمانو (میراثیوں) نے یہ کام کیا ہے کہ اپنے آلاتِ موسیقی توڑ دیے ہیں، لیکن سوات سے باہر جا کر وہاں مجالس منعقد کرتے ہیں۔ اُسے ( شبانہ) بھی دو دِن قبل کوئی رستم لے گیا تھا۔ وہاں سے 203000 روپے (دو لاکھ تین ہزار) لائی تھی۔ جب یہ وہاں پہنچی، تو برقع یا چادر ، یعنی جو بھی وہ اوڑھی ہوئی تھی، ہٹا کر کہنے لگی کہ اللہ طالبان کو غرق کرے۔ اُنھوں نے ہمارے کاروبار کو خراب کیا ہے۔ کہیں کسی کو اِس کا پتا چل گیا ہوگا، تو اُس نے اُسی پر 14 یا 18 روپے خراب کیے ہیں اور اُسے اپنے مقام پر پہنچایا ہے (یعنی اُسے قتل کیا ہے)۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سوات کی رقاصائیں اور رقاص صرف رقص نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے ساتھ گلوکار یا گویے بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ محافلِ رقص و سرود میں رقص کے ساتھ ساتھ پشتو اور اُردو کے گیت بھی بڑی خوب صورتی سے گایا کرتے تھے۔ جب کہ گانے بجانے میں بعض اوقات ’’دوپڑی مار‘‘ اور ’’بیم باجہ مار‘‘ (گود میں ہار مونیم لے کر ہارمونیم نواز) بھی گیت گانے میں اُن کا ساتھ دیا کرتے تھے یا اُن کی ہم نوائی کرتے تھے۔
سوات میں مجالسِ موسیقی اور رقص و سرود اب بھی ہوا کرتی ہیں، لیکن رقاصی کے پیشے سے منسلک مینگورہ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے بہ قول سمارٹ موبائل فون سیٹوں کی وجہ سے اِن کا وہ پرانا مزا یا دوسرے لفظوں میں دھوم باقی نہیں رہی ہے۔
( اِس مضمون میں درج بعض باتوں اور معلومات کے لیے میں فضل رازق شہاب صاحب اور رقص کے پیشے سے منسلک مینگورہ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد، جس سے مَیں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اُس کا نام نہیں لکھا جائے گا، لہٰذا اُس کے نام لکھنے سے احتراز کرتا ہوں، کا مشکور ہوں۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔