نیازی سرکار بارے اخبارات کی شہ سرخیوں اور سوشل میڈیا پر کچھ اس قسم کا نقشہ کھنچا ہوا ملتا ہے: ’’سوات کے عوام گزشتہ سات سال سے تبدیلی کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس دوران میں سوات میں اتنے ترقیاتی کام ہوئے ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ ہم سوات کے عوام بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہم کو دبنگ ایم پی اے، فخرِ ملاکنڈ، فخرِپختونخوا اور فخرِ پاکستان کے نام سے فضل حکیم خان یوسف زئی، محمود خان یوسف زئی اور مراد سعید جیسے نمائندے نصیب ہوئے ہیں، جنہوں نے صرف تقریروں پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ سوات کو جنت کا ٹکرا بنا کر رکھ دیا۔ سوات کی ہر تحصیل میں کالج اور کھیل کا میدان قائم کرکے سات سال پہلے کیے جانے والوں وعدوں کو عملی جامہ پہنچایا۔ سوات میں ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی بنا کر سوات کے عوام کا سینہ فخر سے چوڑا کر دیا (یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کے نمائندے سالوں سے زیرِ تعمیر سوات یونیورسٹی کو دنیا کا ’’آٹھواں عجوبہ‘‘ قرار دے رہے ہیں)۔ صرف میڈیا کے نمائندوں کو پی ٹی آئی کی جانب سے کیے جانے والے میگا پراجیکٹ اور ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔ ہر سال سوات میں ہزاروں طلبہ کے داخلوں سے محرومی کی خبروں کو چلا کر دیگر سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے پر کام جاری ہے۔ میڈیا کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی اپنی ہی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دبنگ ایم پی اے، فخرِ پختونخوا اور فخرِ پاکستان کی کامیابیوں سے جل کر میڈیا میں کرپشن کے بیانات داغتے رہتے ہیں۔ یہ تو ان نمائندوں کا کمال ہے کہ اُن غیر حقیقی بیانات پر مکمل خاموش ہیں، یہاں تک کہ ان بیانات پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے۔‘‘
قارئین، اپنی ہی پارٹی پر کرپشن کے الزامات لگانے میں تو خود ایم پی اے عزیز اللہ گران خان پیش پیش ہیں۔ سوات کا کوئی ایسا محکمہ نہیں جس میں اس مردِ میدان نے کرپشن کی نشان دہی نہ کی ہو۔ پچھلے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے کہ گران صاحب اور ان کے ترجمان فضل ربی بھائی میڈیا میں بیانات داغ رہے ہیں کہ ’’کرپشن کے تمام ثبوت نیب کو حوالہ کریں گے!‘‘ مگر ابھی تک ان کو یہ فائلیں نیب کو دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔

ایم پی اے عزیز اللہ گران خان صاحب ایک خوشگوار موڈ میں۔

قارئین، مَیں نے اپنے آخری کالم میں لکھا تھا کہ ایم پی اے گران خان مختلف محکموں، ٹھیکوں، بھرتیوں کو جواز بنا کر اپنی ہی حکومت کی کارکردگی کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں، یہاں تک کہ جتنے بھی بیانات سامنے آئے ہیں، ان میں کسی نہ کسی طرح ممبرانِ اسمبلی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ گران خان کے ساتھ اس اہم کام میں ان کے قریبی ساتھی اور پارٹی کے ترجمان فضل ربی بھائی بھی برابر کا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کڈنی ہسپتال سے شروع ہونے والی جنگ ایری گیشن، واسا، ٹی ایم اے، سوئی گیس، معدنیات، سی اینڈ ڈبلیو، کوہستان گٹ تا پانڑ لوئے بنڑ روڈ کی تعمیر، سیدو ہسپتال سے فرار ہونے والے جعلی ڈاکٹر کی شناخت سمیت بھرتیوں اور بدعنوانی کے الزامات اور حال ہی میں تبدیل ہونے والے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن پر سوات سے قیمتی لکڑیاں سمگل کرنے سمیت بیوٹی فی کیشن پراجیکٹ فنڈزکی انکوائری سے ہوتے ہوتے ’’کارکنوں کو عزت دینے کی جنگ‘‘ تک پھیل چکی ہے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ اب تو گران صاحب کے الزامات میں مزید تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے، مگر مجال ہے کسی بھی حکومتی ادارے کی کہ ان کا نوٹس تک لے، جب کہ سوات کی سیاسی پارٹیوں کے قائدین بھی اس پر خاموش ہیں۔
قارئین، صوبائی حکومت نے جو ـ”Whistle blower act” متعارف کرایا ہے، اس میں کرپشن کی نشان دہی کرنے والوں کو انعام ملے گا، مگر اب تک کسی نامراد نے انعام لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ گران صاحب کے تقریباً تمام بیانات اور الزامات کسی کو بھی ’’لکھ پتی‘‘ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی اور کروڑ پتی نہیں بننا چاہتا، تو اس کی مرضی۔ مگر کم از کم فضل ربی بھائی تو بن سکتے ہیں۔ اس لیے ہم ان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ بیانات اور الزامات کو چھوڑئیے، آپ کی اپنی حکومت نے جو ایکٹ متعارف کرایا ہے، اس سے آپ بھی فائدہ اٹھائیں اور قوم کو بھی دیں۔
گذشتہ سات سال سے پی ٹی آئی نے کرپشن خاتمہ کے جو دعوے کیے ہیں، ان کا جنازہ ایم پی اے گران صاحب بڑے دھوم دھام سے نکال چکے ہیں۔ کڈنی ہسپتال میں کرپشن کے الزامات اور پھر حکومت کی خاموشی اور آخرِکار ’’احتجاج‘‘ کی کہانی کچھ اتنی پرانی بات نہیں۔ ہم کو یہ بھی یاد ہے کہ’’ فخرِ پاکستان‘‘ جناب مراد سعید صاحب کے پرسنل سیکرٹری خورشید دادا نے ہسپتال میں ’’سیاسی مداخلت‘‘ بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بصورتِ دیگر سخت مزاحمت کی دھمکی بھی دی تھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے فضل ربی بھائی نے میڈیا کے ذریعے خورشید دادا کے خلاف بھی ایک عدد بیان داغا تھا کہ ’’موصوف کرپٹ لوگوں کا ساتھ دے کر عمران خان کے وِژن کو ناکام بنا رہے ہیں، اوروہ کڈنی ہسپتال میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور کرپشن پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘‘ ایسے میں گران صاحب کہاں نچلا بیٹھنے والے تھے، کئی مرتبہ میڈیا کے ذریعے اس بات کا اظہار فرماتے رہے کہ ’’کچھ محکموں میں کرپٹ مافیا کو بعض سیاسی لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔‘‘
پی ٹی آئی کی جانب سے ملاکنڈ ڈویژن خصوصاً سوات کے لیے جن تاریخی میگا پراجیکٹوں کا آغاز کیا گیا ہے، وہ لائقِ تحسین ہیں۔ ان میں ایم پی اے گران کے کرپشن الزامات کے علاوہ تعلیمی درسگاہوں کی تعمیر کے بجائے چھاؤنی کے لیے تقریباً سو کنال اراضی بشمول جنگلات اور ملاکنڈ ڈویژن کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ چھوٹے چھوٹے پراجیکٹوں میں بے تحاشا مہنگائی، بجلی؍ گیس بلوں میں اضافہ ،ٹھپ کاروبار وغیرہ شامل ہیں۔ اگر اس کے باوجود بھی کوئی اس تاریخی تبدیلی سے مطمئن نہیں، تو وہ پی ٹی آئی کے خلاف دیگر سیاسی جماعتوں یا پھر بیرونی ایجنڈا پر عمل پیر ا ہے۔ اور اگر ایسا بھی نہیں، تو پھر وہ کسی ذہنی امراض کے اچھے معالج سے رجوع فرمائے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔