ہم تعداد میں یہی کوئی بائیس مرد اور خواتین اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ کے بین الاقوامی روانگی کے لاؤنچ میں موجود تھے۔ ہم سب کی خوشی کی انتہا نہ تھی اور گپ شپ میں مصروف تھے جس کی وجہ سے ہم قدرے زیادہ شور مچا رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ سکندرمقدونیہ کی فوج کئی دنوں کی خوں ریز لڑائی کے بعد پوری دنیا پر قابض ہوگئی ہو، یا کوہِ پیماؤں کی ٹیم نے کئی بار ناکامی کے بعد ’’کے ٹو‘‘ کی چوٹی سر کرلی ہو۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے بیگ اور صندوق بہت بڑے اور تعداد میں زیادہ تھے۔ ان کے تین تین بھاری بھر کم صندوق دیکھ کر میں اس سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کہیں یہ خواتین مکمل طور پر شفٹ نہ ہونے جا رہی ہوں یا شائد وہ تجارت کا سامان لے کے جا رہی ہوں، تاکہ پروگرام میں شمولیت کے ساتھ ساتھ کچھ منافع بخش کاروبار بھی ہوسکے۔ خیر، ہم ائیرپورٹ روانگی کے وقت سے کافی پہلے پہنچے تھے، جہاں خواتین کا گروپ الگ جب کہ مردوں کا گروپ الگ بیٹھ کرخوش گپیوں میں مصروف تھا۔ دونوں گروپوں کے پُرجوش قہقہوں اور اُونچی آواز میں باتوں سے میں نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ مرد اور خواتین گروپ شور مچانے میں برابر کے حصہ دار تھے۔ شاید امریکہ جانے کے لیے سب دل ہی دل میں انتہائی خوش تھے اور یہ خوشی دِکھ بھی رہی تھی۔ دراصل یہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے چنے گئے تقریباً بائیس صحافیوں کا گروپ تھا، جسے ’’امریکہ پاکستان پروفیشنل جرنلزم ایکسچینج پرگرام‘‘ میں پانچ ہفتوں کے لیے امریکہ جانا تھا۔ یہ پروگرام انٹرنیشنل سنٹر فار جرنلسٹ امریکن سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مالی معاونت سے چلتا ہے جب کہ پاکستان میں اس کی انتظامی ذمہ داری یونائیٹڈ سٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن پاکستان کی ذمہ داری تھی۔ سال 2018ء کا گروپ اس پروگرام میں اب تک سولہواں گروپ تھا، جس میں 11 خواتین اور 11 مرد تھے۔ منتظمین نے پہلے ہی سے دو دو صحافیوں کا گروپ بنا کر ان کو امریکہ میں مختلف سٹیٹس میں میڈیا ہاؤسز کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ بعض گروپوں میں دو دو مرد اور بعض میں دو دو خواتین شامل تھیں جب کہ چند گروپو ں میں ایک مرد اور ایک خاتون شامل تھی۔ میں بھی آخر الذکر گرو پ کا حصہ تھا جس پر چند مرد دوستوں نے مجھے آہستگی سے کہا: ’’تم خوش قسمت ہو۔‘‘ تاہم میرے ساتھ کراچی سے تعلق رکھنے والی دی ہیرالڈ میگزین کی سب ایڈیٹر فاطمہ نیازی گروپ میں تھی اور ہمیں فلوریڈا ٹوڈے نامی میڈیا ہاؤس جا کر کام کرنا تھا، جس کے اداس چہرے کو دیکھ کر میں خود کو بالکل خوش قسمت محسوس نہیں کر رہا تھا۔ فاطمہ نیازی ایک دلچسپ کردار ہے یا اگر یوں کہوں کہ عجیب وغریب ہے، تو غلط نہیں ہوگا۔ خیر، اس کے بارے میں آئندہ تفصیل سے لکھوں گا۔
تقریباً ایک گھنٹا بعد ہم بورڈنگ پاس لینے کے لیے کاؤنٹر پر گئے، جہاں ہم دو قطاروں میں لگ گئے۔ کاؤنٹر پر کھڑے ایک صاحب نے کہا کہ سب مسافرو ں کو ائیرپورٹ ٹیکس الگ سے دینا ہوگا، جس پر ہم مردتو چپ چاپ مان گئے، مگر دو تین خواتین نے تو ایسا شور مچایا کہ پورا ہال لرز اٹھا۔’’میں تو بالکل نہیں دو ں گی، ہم صحافی ہیں، یہ کوئی مذاق تو نہیں!‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ جب میں نے ان خواتین کی ایسی جرأت دیکھی، تو مجھ میں بھی تھوڑی سی اکڑ آئی اورجو ڈھائی سو روپے بٹوے سے نکالے تھے، وہ واپس جیب میں رکھ دیے اور سر اٹھا کر کاؤنٹر کے پار حضرات کو گھورنے لگا۔ تاہم کچھ دیر کے شور شرابے کے بعد صحافیوں کو ائرپورٹ عملہ کے سامنے ہار ماننا پڑی۔ سب نے ڈھائی سو روپے ادا کیے، بورڈنگ پاس لیے اور بورڈنگ لاؤنچ کی طرف چل پڑے۔

ائیرپورٹ میں انتظار کے وقت خوش گپیوں میں مصروف ٹیم کا اک نظارہ۔ (فوٹو: فضل خالق)

اسلام آباد کا نیا ہوائی اڈا یقینا جدید طرزِ تعمیر کا عکاس ہے اور اب ہم پاکستانی بھی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے دارالخلافہ میں بین الاقوامی معیار کا ائرپورٹ ہے، ورنہ اس سے پہلے کا ہوائی اڈا جو چک لالہ میں تھا، کسی بھی لحاظ سے معیاری نہیں تھا۔ جس طرح پرانے ہوائی اڈے کی عمارت اور لوکیشن خراب تھی، اسی طرح وہاں پر موجود ہر ادارے کا سٹاف بھی بداخلاق اور بدعنوان تھا۔ اسی لیے تو یہ دنیا کے بدترین ائیرپورٹس کی لسٹ میں ٹاپ پر آتا تھا۔ اب جب کہ نیا ائیر پورٹ بین الاقوامی طرز پر تعمیر ہوا ہے، تو مجھے امید ہے کہ یہاں موجود سٹاف کا رویہ بھی تبدیل ہو ا ہوگا اور یہ مزید بد ترین ائیر پورٹس کی لسٹ میں ٹاپ نہیں کرے گا۔
اگر سچ کہوں، تو مجھے امریکہ جانے کی خواہش بہت ہی کم ہوئی اور نہ ہی میں نے امریکہ جانے کے لیے کبھی کسی پروگرام میں اپلائی کیاتھا۔ کیوں کہ پاکستان میں امریکہ مخالف پروپیگنڈا اتنا زیادہ ہے کہ ہر پاکستانی دل ہی دل میں امریکہ کو ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے مجھے بھی امریکہ سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ ڈپارچر لاؤنچ میں اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد ہم اتحاد ائیرلائن سے روانہ ہو کر ابو ظہبی پہنچے اور وہاں سے برطانیہ کے ’’ہتھرو ائیر پورٹ‘‘ پہنچے، جہاں چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد ہم امریکی ائیرلائن سے شارلٹ امریکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یوں تقریباً آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد شارلٹ پر اترے۔
یہاں ہم امیگریشن کے سوال و جواب کے بعدڈومیسٹک یعنی اندرونِ ملک روانگی کے لاؤنچ میں داخل ہوئے۔ کافی لمبے سفر کے بعد ہم سب اتنے تھک گئے تھے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ لاؤنچ میں لیٹ گئے۔ اتنے لمبے سفر کے بعد میں تو تقریباً بھول ہی گیا تھا کہ ہم امریکہ جار ہے ہیں، یا دنیا کے آخری کونے جار ہے ہیں۔ تقریباً چار گھنٹے کے بعد خدا خدا کر کے ہم واشنگٹن ڈی سی کے لیے روانہ ہوئے۔اس سفر میں جہاز ایسے ہچکولے لے رہا تھا کہ مجھے 2005ء کا زلزلہ یاد آیا۔ مجھ سمیت چند اور ساتھیوں نے بھی آیت الکرسی کا ورد جاری رکھا۔ تھکے ہارے جب ہم واشنگٹن ڈی سی پہنچے، تو رات ہوچکی تھی۔ ائیر پورٹ کے باہر آئے، تو ایک بڑی بس ہمیں لینے پہلے سے وہاں موجود تھی۔ بس کا حلیہ ایسا تھا جیسے ساٹھ، ستر کی دہائی میں پاکستان میں راکٹ بسیں چلتی تھیں اور جو آج کل میتوں کے لے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، مگر جب ہم بس میں داخل ہوئے، تو اندازہ ہوا کہ اندر سے بس آرام دہ اور خاصی اچھی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹا کی مسافت کے بعد ہم ون واشنگٹن سرکل ہوٹل پہنچے۔ آدھی رات گزر چکی تھی اور مختلف ائیر لائنز کے جہازوں میں جو انگریزی نما کھانا ہمیں ملا تھا، اس سے قطعی ہماری بھوک نہیں مٹی تھی۔ اس لیے ہم سب بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔ پی ٹی وی نیوز کے نمائندے شیر دل نے ہمیں کہا کہ قریب ہی فارمیسی سٹور ہے، جہاں سے خوراک حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم نیچے گئے، سٹور کا پتا کرکے خوراک کا سامان لیا اور پیٹ بھر کر سونے کے لیے چلے گئے۔ ویسے بھی ہمیں صبح 11 بج کر 30 منٹ پر ’’آئی سی ایف جے‘‘ کی ایک نمائندہ تابیتا سے ملنا تھا جو ہمیں پروگرام کے ’’یومیہ اعزازیہ‘‘ کی رقم دینے والی تھی۔
یار زندہ صحبت باقی!

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔