ملک میں آج کل یہ بحث زور و شور سے چل رہی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں مطلب وہ پاکستانی جو کسی وجہ سے بیرونِ ملک موجود ہیں، ان کی ملکی سیاست یعنی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کو کس طرح یقینی بنایا جائے؟ یعنی ان کو براہِ راست ووٹ ڈالنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
ویسے تو تمام پاکستانی جن کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے، ان کو ووٹ کا حق قانونی اور آئینی طور پر حاصل ہے، لیکن طریقۂ کار کیا ہو؟ یہ بات قابلِ غور و فکر ہے۔ اس پر اب تک تینوں بڑی جماعتوں کی یہ رائے سامنے آئی ہے کہ حکومت میں براجمان تحریکِ انصاف ان کو ان کے مجوزہ حلقہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں ووٹ دینے کی سفارش کرتی ہے۔
دوسری بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ اس کے قطعی مخالف ہے اور ان کی تجویز یہ ہے کہ چوں کہ اوور سیز پاکستانیوں واسطے ووٹ ڈالنا عملاً ممکن نہیں اور پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں ان کی اس میں صاف شفاف شرکت بہت مشکل ہے۔ سو بجائے ان کو ووٹ کا حق دینے کے ان واسطے قومی و صوبائی اسمبلیوں بلکہ سینٹ میں نشستیں مخصوص کر دی جائیں کہ جس طرح خواتین یا اقلیتوں کی ہوتی ہیں۔
تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی تجویز ہے کہ بجائے ان کے لیے آپ پاکستان کے حلقوں کے لیے ووٹ کروائیں جو بہت مشکل ہے، یا مخصوص نشستیں مختص کریں، آپ ان کی نشستوں کا تعین کر دیں۔ وہ لوگ اوور سیز میں ہی انتخاب لڑیں اور وہی سے منتخب ہو کر نمائندگی کریں۔
اب اگر مذکورہ تینوں تجاویز کا جائزہ سیاسی تعصب سے ہٹ کر کیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تینوں تجاویز اپنی اپنی جگہ کسی حد تک مناسب بھی ہیں اور کسی حد تک قابلِ تنقید بھی، لیکن ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس میں نسبتاً بہتر تجویز چیئرمین پیپلز پارٹی کی ہے۔ کیوں کہ جو تجویز حکومت کی جانب سے آئی ہے، وہ شاید اب تک پاکستان کے نظام اور سیاسی کلچر کے لیے عملی طور پر ممکن نہیں۔ اس کی بڑی وجہ اوورسیز پاکستانیوں کا پاکستان میں اپنے حلقہ کے لیے ووٹ کاسٹ کرنا، یہ بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اب شخص مذکورہ حلقہ کا سعودیہ کے دور دراز علاقہ قوریات میں اور دوسرا آسٹریلیا کے شہر برسبین کے مضافات میں، تیسرا جارجیا کے علاقہ قزقاف میں، چھوتھا جاپان کے شہر کیوٹو وغیرہ میں ہے، تو وہ کس طرح اور کہاں ووٹ پول کریں گے؟ پھر ان کے ووٹ کا اندراج کیسے ہوگا اور کس طرح اس کو صحیح درج کیا جائے گا؟
یہاں تو حالات یہ ہیں کہ ایک شخص نسلوں سے راولپنڈی میں رہتا ہے۔ عین پولنگ کے دن اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ووٹ تو گجرانوالہ میں درج ہے، تو پھر برسبین اور ایتھن میں موجود کسی گجراتی کا ووٹ عین اس کے پاکستان میں موجود حلقہ میں کون کس طرح اور کیسے درج کروائے گا؟ اگر بالفرض اس کا ووٹ چیلنج ہوگا، تو الیکشن کمیشن کس طرح اس کو سمن کر کے بلائے گا؟ پھر جب یہ ووٹ بذریعہ انٹر نٹ ای میل آئے گا، تو کس طرح یہ بات یقینی ہوگی کہ کوئی اور اس کا غلط استعمال نہ کرے گا؟ پھر ہمارے اکثر مذدور جو اَن پڑھ ہیں، ان کی مدد کرنے والا کس طرح عین ان کی خواہش کے مطابق ہی ووٹ بھیجے گا؟ اس طرح اگر یہ ووٹ بذریعۂ ڈاک آتی ہے، تو اس کی ضمانت کون دے گا کہ ڈاکیا سے مل کر گیم میں رد و بدل نہیں کیا جائے گا؟ سو یہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے جو کہ ہمارے خیال میں عملی طور پر ممکن ہی نہیں۔
اب آئیں دوسری تجویز پر جو مسلم لیگ نون کی طرف سے ہے۔ گو کہ انتظامی طور پر یہ بہت سہل اور سادہ ہے، لیکن جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر ان کا فیصلہ بھی خواتین یا اقلیتوں کی طرح متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کیا گیا، تو پھر سیٹھ صرف دولت لگا کر ہی سیٹ خرید لیں گے، یا قیادت کہ جس نے اس کا فیصلہ کرنا ہے، وہ اپنی قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو بطورِ تحفہ یہ سیٹیں سونپ دے گی۔
بلکہ پاکستان کے معاشرتی تناظر میں تو یہ بات بھی ممکن ہے کہ کچھ دولت مند محض سیٹ لینے واسطے وقتی طور پر خود کو اوور سیز بنا کر قابض ہو جائیں۔ کیوں کہ یہاں پر ہمارے بہت سے وفاقی و صوبائی وزرا بلکہ وزیر اعظم تک کے اقامے برآمد ہوچکے ہیں۔ جو لوگ اس تناسب والے کھیل سے اسمبلی میں مسلط ہوں گے، ان کو اوور سیز پاکستانی کارکنان سے مطلب ہوگا اور نہ دلچسپی۔ یہ محض جماعت کے سربراہان اور چند دولت مندوں کا فائدہ ہے اور قومی اسمبلی اور سینٹ پر مزید معاشی بوجھ، کہ جو عوام کے ٹیکسوں کا پیسا ہے۔ اس لیے ہم اس تجویز کو کلی طور پر مسترد کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اب جو آخری تجویز پیپلز پارٹی کی جانب سے آئی ہے، تو ہمارا خیال ہے کہ کچھ پیچیدگیوں کے باجود بھی یہ تجویز بہت حد تک قابل عمل بھی ہے اور جمہوری بھی۔
آپ بیرونِ ملک سیٹوں کو افرادی قوت کی بنیاد پر تقسیم کر دیں۔ مثلاً شمالی و جنوبی امریکہ کی ایک سیٹ، آسٹریلیا اور مشرق بعید تھائی لینڈ تک کی ایک سیٹ، جنوبی ایشیا و افریقہ کی ایک سیٹ اور شرق وسط یعنی عرب ممالک یا خلیجی ممالک کی ایک سیٹ۔ یہ قانون بنا دیا جائے کہ یہاں سے ان ممالک میں موجود پاکستانی ہی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہیں اور ان کے ووٹر بھی انہیں ممالک میں بسنے والے پاکستانی ہوں گے، جن کی شناخت باآسانی ان کے پاسپورٹ اور متعلقہ ملک کی دستاویز سے ہو سکتی ہے۔ یہ عمل نسبتاً کم پیچیدہ ہے۔ کیوں کہ اس سے جو لوگ الیکشن میں امیدوار ہوں گے، وہ خود ان ممالک کے دور دراز مقیم پاکستانیوں سے رابطہ کریں گے۔ باہمی مشاورت سے ان ممالک میں موجود سفارت خانوں، قوفصل جنرل دفاتر پی ای اے کے آفس، پاکستانی سکولوں حتی کہ پاکستانی ہوٹلوں اور سینماؤں وغیرہ میں الیکشن بوتھ بنائے جا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن پاکستانی سفارت خانوں کی مدد سے وہاں سے ہی مقامی طور پر ریٹرنگ اور پیریزائڈنگ افسران کا وقتی طور پر تعین کرسکتا ہے۔ باقی وہاں سے امیدواران یقینا خود اپنے پولنگ ایجنٹوں کا تعین کرلیں گے۔ جس طرح پاکستان میں ریٹرننگ افسران ایک فارم نتائج کا بناتے ہیں، بنا کر نتیجہ متعلقہ پولنگ ایجنٹوں کو پیش کر دیں گے۔
یہ انتخابات تقریباً پاکستان میں موجود انتخابی نظام کی طرح ہی منعقد ہوں گے۔ اس طرح جو امیدوار جیت کر اسمبلیوں میں آئیں گے، وہ نہ صرف اوور سیز پاکستانیوں سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہوں گے بلکہ ان کے مسائل کو بھی حل کرنے کے پابند ہوں گے۔ سو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ محترم بلاول بھٹو کی اس تجویز کو سنجیدہ لے کر باقاعدہ اس کو سول سوسائٹی اور قومی اسمبلی پر بحث واسطے رکھا جائے۔ کچھ گذارشات تو ہم نے پیش کی ہیں اور کچھ مزید اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے، لیکن اس واسطے پارلیمان میں موجود تمام پارلیمانی قوتوں خصوصاً حکومت کا سنجیدہ ہونا لازمی ہے۔
ویسے مَیں جانتا ہوں کہ پاکستان کی تقریباً ہر چھوٹی بڑی جماعت کی شاخیں بیرونِ ملک ہیں۔ آپ ذرا ان سے مشورہ کر لیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو بلاول والی تجویز کے حق میں اکثریت کی رائے ملے گی۔ باقی اب تک کی جو پیش رفت ہوئی ہے، اس کے مطابق ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اب تک ہماری حکومت کی اس پر کوئی سنجیدہ حکمت عملی بالکل نہیں، بلکہ حکومت اس کو محض ایک سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کر رہی ہے، تاکہ اوور سیزز پاکستانیوں کو یہ ’’لالی پاپ‘‘ دے کر بس خوش کر دیا جائے۔ کیوں کہ حکومتی جماعت چوں کہ اوور سیز کے ان عناصر جو بیرونِ ملک نسبتاً دولت مند ہیں، میں زیادہ مقبول ہے۔ اس لیے وہ لوگ حکومتی جماعت کو فنڈ بھی زیادہ دیتے ہیں اور حکومت مزید ان کی ہم دردیاں سمیٹ کر اپنے واسطے فنڈ کا مزید حصول سہل بنانا چاہتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت شاید اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ اوور سیز کے اس طبقہ میں کہ جو محنت کش ہے، اتنی مقبول نہیں کہ جتنی سمجھی جاتی ہے۔ چوں کہ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان سے باہر گزرا ہے۔ اس وجہ سے مَیں ذاتی طور پر اس بات سے آگاہ ہوں کہ محنت کش مزدوروں میں تحریکِ انصاف شاید پہلے بھی اتنی مقبول نہ تھی۔ اب تو خیر سے حکومت کی حمایت کو ہر جگہ پر شدید دھچکا لگا ہے۔ المختصر حکومت یا تو اس پر سنجیدگی سے غور کرے یا پھراس بحث کو کلی ختم کیا جائے۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔