’’میں صحافی ہوں!‘‘ یہ کہنا ہوتا ہے آج کل ہر اس شخص کا جس کے ہاتھ میں ایک عدد سمارٹ فون یا کوئی سستا سا کیمرہ اور مائیک ہو۔ جس پر پچاس روپے کا لوگو (Logo) لگا ہو۔ اور کیوں نہ ہو! سوشل میڈیا نے ہر کسی کو صحافی جو بنا دیا ہے۔
قارئین، آج کل صحافی بننا انتہائی آساں ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "فیس بک” پر اکاؤنٹ اور اپنے من پسند نام سے پیج بنا کر پھر چاہے جو کچھ اس میں ڈالیں آپ ڈال سکتے ہیں۔ فوٹو ہو یا ویڈیو، زبانی پیغام ہو یا کسی بھی حوالے سے کوئی بھی تحریر، تصدیق کی کوئی ضرورت نہ اخلاقیات کی کوئی تمیز، کسی کو ہیرو بنانا یا کسی کو بلاجواز سرِ عام رسوا کرنا ہو، قانونی تقاضے پورے کرنے کی پروا، نہ معاشرتی اقدار کا کوئی لحاظ، بس آپ کے فوٹوز، ویڈیوز اور تحریر اَپ لوڈ ہونے کی دیر ہوتی ہے اور آپ بن جاتے ہیں "مہان پترکار!”
پرنٹ اور الیکٹرانک یعنی قومی دھارے کے میڈیا کی توجہ کا مرکز کوئی بھی سرگرمی، اس کے اغراض و مقاصد، شرکا کے تاثرات اور ممکنہ اٹھائے جانے والے اقدامات کی معاشرتی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا مثبت اور منفی پہلو ہوتا ہے، مگر سوشل میڈیا کی فوج کے پیادے تو سمارٹ فون سے کھانا کھانے تک کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر دکھاتے ہیں کہ کس نے کتنا بڑا نوالہ منھ میں ٹھونس کر حلق سے اتارا؟ کس نے ہاتھ سے کھایا اور کس نے چمچ سے؟ کس نے بیٹھ کر کھایا اور کس نے کھڑے ہوکر؟ کون، کہاں اور کس حالت میں بیٹھا تھا؟ کس نے کس کے کان میں سرگوشی کی؟ کس نے کس کے سامنے سے پلیٹ کھینچا اور سالن کا قطرہ کس کے لباس پر گرا؟ مگر یہ سب کچھ کسی بھی طرح اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا۔
قارئین، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے خون آلود اور سربریدہ لاشوں کی تصاویر شائع اور نشر کرنا منع کر دیا ہے، مگر سوشل میڈیا پر یہ کام بے دھڑک اور بلاجھجک کیا جاتا ہے۔
قومی میڈیا بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر مالی امداد کے مستحق کسی شخص کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو شرم کے مارے وہ کسی سے آنکھ ملانے کے قابل نہیں رہتا یا پھر مجبوراََ ڈھیٹ اور پیشہ ور بھکاری بن جاتا ہے۔
قومی میڈیا، قومی سیاست اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اور ان کے کرتوت کو مہذب اور شائستہ انداز میں اس خوبصورتی سے بیان کرتا ہے کہ بجائے ناراض ہونے کے الٹا وہ خوش ہوجاتے ہیں، مگر سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور غیر مہذب طرزِ بیاں کے ذریعے ان کا اگلا پچھلا برابر کرکے انہیں دن میں تارے دکھا دیے جاتے ہیں۔
قومی میڈیا علاقائی مسائل اور سنگین عوامی مشکلات اُجاگر کرنے سمیت تعریف و تنقید کے تناظر میں اداروں کی مجموعی یا ذمہ داروں کی انفرادی کارکردگی سامنے لاتا ہے، مگر اس میں قومی میڈیا اور اس سے وابستہ کارکن صحافیوں کی ذاتی خواہش اور مرضی و منشا کو سختی سے منع اور رد کیا جاتا ہے، جو کہ صحافت جیسے مقدس، سنجیدہ اور ذمہ دار شعبہ کے بنیادی اصول ہیں، مگر سوشل میڈیا پر ایسے اصولوں کی کوئی پاس داری نہیں کی جاتی۔
قومی میڈیا پر واقعاتی رپورٹنگ کو باقاعدہ تحقیق اور تصدیق کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور "جو جیسا ہے، ویسے دکھایا جائے گا” کی بنیاد پر رپورٹ شائع اور نشر کی جاتی ہے، اور باور کرایا جاتا ہے کہ رپورٹنگ کے دوران میں کسی گروہ کی اجتماعی یا انفرادی حیثیت میں کسی کے جذبات، احساسات، اَنا اور عزتِ نفس مجروح نہ ہو، مگر سوشل میڈیا پر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ انسانی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
قتل یا قدرتی آفت کے سبب انسانی اموات کے واقعات کو نہ صرف متاثرہ افراد کے جذبات ابھار کر اور انہیں رُلا کر رپورٹ کیا جاتا ہے بلکہ متاثرہ افراد جن میں بزرگ شہری، خواتین اور بچے شامل ہوتے ہیں، کو اُکسا کر ان سے اپنی مرضی کا بیان لے کر ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، یعنی کمزور اور مظلوم شہریوں کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر سوشل میڈیا والے اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔ وہ بھی محض سستی شہرت اور اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی ریٹنگ بڑھانے کی خاطر،جب کہ وہ اپنے فرینڈز، ویورز اور فالورز کی منت کرکے انہیں ویڈیوز دیکھنے، لائیک، شیئر اور کمنٹ دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کا مقصد پورا ہو ہی جاتا ہے۔ کیوں کہ فیس بک پر ایسے مواد دیکھنے والے بھی عجیب ہیں کہ وائرل ہونے والی ویڈیوز اور پوسٹ بغیر دیکھے اور سُنے لائیک اور شیئر کرتے ہیں اور تاثرات بھی لکھ ڈالتے ہیں۔
طُرفہ تماشا تو یہ ہے کہ کوئی بندہ پوسٹ کرکے اپنے والد، والدہ، بھائی یا کسی اور رشتہ دار کی فوتگی کی اطلاع دیتا ہے یا اطلاع آتی ہے کہ فلاں جگہ بم دھماکا میں دو درجن سے زائد شہری مارے گئے، تو پوری پوسٹ پڑھنے کی بجائے اندھادھند "ماشاء اللہ”، "زبردست”، "بہترین”، "ویری گُڈ” اور "ویری نائس” جیسے تاثرات لکھے جاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ایسے تاثرات لکھنے والے اَن پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، کیوں کہ فیس بُک کی پوسٹوں کو لائک کرنے والوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرینِ تعلیم اور دیگر عہدوں پر فائز اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مقصد ویڈیوز اور تحریری پوسٹ ڈالنے والوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ چاہے مواد کچھ بھی ہو اور اکاؤنٹ کا ایڈمن بھی بس یہی تو چاہتا ہے۔
قارئین، مگر یہ غلط ہے۔ جرأت تو یہ ہونی چاہیے کہ پوسٹ کرنے والے کو اس کی غلطی کی نشان دہی کرکے سمجھا جائے، نہ کہ اس کی حوصلہ افزائی ہو۔ فیس بُک دیکھنے والوں کے بھی کیا کہنے، کہ چھٹی جماعت فیل پشتو ادب سے بے خبر فرمان کسکرؔ کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا جاتا ہے، جسے شعر و شاعری سے کوئی شغف نہ اس کی شد بد مگر لوگ قافیہ، ردیف، وزن اور بحر سے کوسوں دور اس کی بے سر و پا مصرعوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سنجیدہ لوگ یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کیا بنے گا اس قوم کا؟
اگرچہ سوشل میڈیا برا نہیں، اطلاعات کی فراہمی اور علمی و معلوماتی مواد کے حوالے سے فیس بک، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع بہت اچھے ہیں، مگر ان کا استعمال اگر غلط ہے، سوشل میڈیا پر کچھ بھی دکھایا اور بتایاجا رہا ہو، مگر یہ تو طے ہے کہ سوشل میڈیا مدر پدر آزاد پلیٹ فارم ہے، جس کا صحافت سے کوئی واسطہ نہیں۔ سوشل میڈیا والے خود کو صحافی قرار دے کر کر غلط کر رہے ہیں۔ کیوں کہ صحافت کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ ایک ذمہ دار اور سنجیدہ شعبہ ہے، اور کسی بھی ریاست کی نیک نامی، ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی، عوامی خوشحالی، مصدقہ اہم اطلاعات کی بروقت رسائی، تاریخی پس منظر کی حفاظت، معاشرتی روایات اور اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں شعبۂ صحافت کا کلیدی کردار ہے۔ خدارا، سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے مواد کی تشہیر نہ کی جائے، جو معاشرہ میں بگاڑ، معاشرتی روایات، اخلاقی اقدار اور ریاست کی بدنامی، بدامنی، علاقائی پس ماندگی اور عوامی مشکلات کا سبب بنے اور سماجی جرائم کے زمرے میں آتا ہو۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔