ڈاکٹر محمد اقبال ہما صاحب ضلع وہاڑی کے مایہ ناز ایم بی بی ایس پریکٹس انگ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین سرجن بھی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی سرکاری جاب سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ وہ ایک اَن تھک ٹورسٹ اور ٹریکر بھی ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بہت سے مشکل ٹریک کرچکے ہیں۔ تحقیق ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ لکھنا لکھانا ان کا ذاتی شوق اور ان کے لیے تسکینِ روح ہے۔ فضولیاتِ زندگی سے کوسوں دور ایک درویش منش اور بہترین انسان ہیں۔ اپنی دھن میں مگن ہو کر اپنے کام سے کام رکھنا ان کی فطرت ہے۔
نبی کریمؐ کی شانِ بیکراں کو عقل کے دایرے میں لا کے الفاظ کا عملی جامہ پہنانا نہ صرف مشکل بلکہ تقریباً ناممکن کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمت و جرات کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ان مشکل ترین موضوعات پر قلم اٹھایا۔ والیِ دو جہاں کی عظمت و رفعت پر بات کرنا کہ کروڑوں فرشتے اور انسان جن کی ذاتِ اقدس پر ہمہ وقت درود و سلام بھیجتے ہیں، خود اللہ جل شانہ جن پر درود و سلام بھیجتا ہے…… کہ جن کا ثانی اس جہان میں تو کیا کسی اور جہاں میں بھی نہیں۔ اس ذاتِ با برکت کی پیروی کی سنت میں لکھی اس کتاب پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں کروڑ ہا مرتبہ اللہ جل شانہ سے اپنی مغفرت کا طلب گار ہوں۔ شانِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا شاید دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

’’قبلۂ عالم‘‘ کا ٹائٹل پیج۔ (فوٹو: خالد حسین)

’’قبلہ عالم‘‘ دراصل ڈاکٹر محمد اقبال ہما صاحب کی علمی کاوش کے ساتھ ساتھ ایک تحقیقاتی کاوش ہے۔ مصنف مکہ و مدینہ اور اس کے ارد گرد کی اُن گلیوں، اُن محلوں، اُن گذرگاہوں پر میلوں تک پیدل چل چل کر حقایق کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے…… جن کو آل سعود مٹا دینے کی پالیسی پر گام زن ہے۔ دراصل محب کو محبوب کی ہر ہر ادا سے پیار ہوتا ہے۔ ہر ہر وہ چیز یا عمارت جو اس سے منسوب ہو، وہ وہ رستے جن پر وہ چلا ہو، وہ جگہیں جن پر اس کا محبوب محوِ استراحت رہا ہو، جہاں جہاں سے وہ گزرا ہو، جہاں جہاں پر اس نے اپنا قدم رنجہ فرمایا ہو۔
ذاتِ رب العالمین کے بعد ذاتِ رحمت العالمین کا قرب ان کا مطمحِ نظر ہے۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ متعدد بار ارضِ مقدس تشریف لے گئے…… اور پھر وہاں پر مناسکِ عمرہ و حج کی ادائی کے ساتھ ساتھ نبی مکرمؐ سے منسوب جگہوں جن میں آپؐ نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے، جہاں جہاں لڑکپن کے دن بتائے، جہاں جہاں اور جن جن گلیوں میں آپ سفر کرتے، چلتے رہتے، جن جن غاروں میں چھپ چھپ کر عبادات کیں، غارِ حرا جہاں پر آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی، آپؐ سے منسوب مختلف اشیا، تبلیغ و اشاعتِ دین کے لیے جہاں جہاں کا سفر کیا، جہاں جہاں پر آپؐ پر مشکلات کے پہاڑ توڑے گئے، ان کی اس جہانِ عالم میں آمد سے لے کر اس دارِ فانی سے پردہ پوشی تک ہر ہر لمحے، ہر ہر ساعت کو ڈھونڈنے کی کوشش، وہ گلی وہ محلہ جہاں جہاں پر آپؐ نے اپنا قدم رنجہ فرمایا، ہوسکتا ہے ان پر میلوں تک پیدل چل کر ان کا لمس پانے کی جستجو کی، ان ہواؤں میں سانس لے کر فضا میں موجود ان معطر ساعتوں اور ہواؤں کو اپنے جسم میں کھینچ کر اپنی روح میں سمونے کی کوشش کی، ہر اُس مقام تک پہنچنے کی جسارت و ہمت کی جو آپؐ، آپؐ کے خاندان، آپؐ سے منسوب لوگوں سے متعلق تھا۔ مصنف ان مقاماتِ مقدس کی حالتِ زار دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوا…… جو آپؐ یا آپؐ کے اہلِ خانہ سے منسوب و متعلقہ تھے۔
داغستان کے مشہور شاعر حمزہ توف کا قول ہے کہ اگر ہم اپنے ماضی کو گولی سے ماریں گے، تو ہمارا ماضی ہم پر توپ کا گولہ داغے گا۔
مَیں خود سنہ2013ء میں عمرہ کی ادائی کے لیے سعودی عرب گیا تھا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ جو وارفتگی اور عبودیت کی سطح ڈاکٹر اقبال ہما صاحب پر طاری ہوئی، مَیں تو اس کا عُشرِ عَشیر بھی نہ پاسکا۔ مصنف نے عشقِ رسولؐ کی چاشنی میں ڈوب کر، اُن لمحوں اُن ساعتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن میں اپنے جسم، اپنی روح کو ڈبو دینے کی کوشش کی۔ رحمتِ الٰہیہ اور نورِ نبیؐ کے بے پایاں سمندر میں غرق ہو کر سراغِ زندگی پانے کی جستجو کی۔
’’قبلہ عالم‘‘ ایک ریفریشر کورس کی مانند ہے۔ دوستوں کے ساتھ گپ شپ اور مکالمہ نگاری کر کے، نازک اور سنگین معاملات کو چھیڑا ہے، ان کا حل بتایا ہے…… جن معاملات کی نزاکت کو ان حالات میں چھیڑنے کی کوئی کم ہی جرات کرسکتا ہے۔ آل سعود کی ’’بلڈوز پالیسی‘‘ پر سخت تنقید کی گئی ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو ہر گھر کی زینت ہونا چاہیے، یا کم از کم حج و عمرہ پر تشریف لے جانے سے پہلے یہ کتاب ہر شخص کو ایک بار ضرور پڑھنی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے دس بارہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد بہت ناپ تول کر، بہت چن چن کر الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اللہ پاک سے دست بستہ دعا ہے کہ اُن کو اس کاوش کا اجرِ عظیم دے۔ دنیا و آخرت میں بے شمار کامیابیوں سے نوازے۔ اس کتاب کو ان کی بخشش کا وسیلہ بنا دے، آمین!
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔