تحریر: عبدالجبار خان 
jabbarulmulk@gmail.com
Domestic policy can only defeat us; Foreign policy can kill us
(John.F.Kennedy)
پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اگر چہ اپنا پہلا بیرونی دورۂ امریکہ کا کیا، مگر اس نے ملک کی خارجہ پالیسی کو غیر جانب دار اور خود مختار رکھا۔ لیاقت علی خان نے کمیونسٹ چین کو تسلیم کیا جب کہ امریکہ،چین کے شدید مخالف تھا۔ نہ خود اسے تسلیم کر رہا تھا بلکہ دوسرے ممالک پر بھی دباو ڈال رہا تھا کہ وہ کمیونسٹ چین کو تسلیم نہ کریں۔ اس طرح امریکہ چاہتا تھا کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے مابین جنگ میں پاکستان، امریکہ کے اتحادی ملک جنوبی کوریا کی مدد کے لیے فوجی دستہ بھیجے، لیکن لیاقت علی خان نے اس جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ پھر 1951ء میں ایرانی وزیرِ اعظم محمد مصدق ملک نے برطانوی آئل کمپنی کو قومی تحویل میں لے لیا۔ برطانیہ نے اپنے دوسری جنگ عظیم کے اتحادی امریکہ کی طرف رجوع کیا۔ امریکہ نے لیاقت علی خان کو کہا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے محمدمصدق کو اس بات پر آمادہ کرے کہ ایرانی آئل فیلڈ کا کنٹرول امریکہ کے حوالے کردے۔ لیاقت علی خان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا، تو امریکہ نے پاکستا ن کو دھمکی دی کہ وہ کشمیر معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔ لیاقت علی خان نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکہ کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے اور باقی آدھا بھی امریکی مدد کے بغیر ہی حاصل کرلے گا۔ پھر 16 اکتوبر1951ء کو راولپنڈی میں لیاقت علی خان کو گولی ما کر شہید کیا گیا۔ اگرچہ پاکستان میں لیاقت علی خان کا قتل آج تک ایک معمہ ہے…… لیکن ہندوستان (بھوپال) کے اُردو روزنامہ ’’ندیم‘‘ میں لیاقت علی خان کے قتل کے کچھ ہی دن بعد 24 اکتوبر 1951ء کو آرٹیکل شایع ہوا، جس میں امریکہ کو لیاقت علی خان کے قتل کا ذمے دار ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ محض الزام نہیں لگایا گیا تھا بلکہ اس کے حق میں کافی ٹھوس دلایل بھی دیے گئے ہیں۔ مثلاً آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ اُس وقت کے امریکی سفیر نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین سے پہلے لیاقت علی خان کی بیوی رانا لیاقت علی خان سے فون پر تعزیت کی۔ باوجود اس کے کہ نہ تو اس وقت موبائل فون تھے، نہ لائیو ٹرانس میشن حتیٰ کہ ٹی وی بھی نہیں تھا اور خبر پہنچنے میں کافی وقت لگتا تھا، تو کیسے امریکی سفیر کو گورنر جنرل سے پہلے وزیرِ اعظم کے قتل کا علم ہوا۔
مزید یہ کہ جو گولی وزیرِ اعظم کے جسم سے نکالی گئی تھی، وہ امریکہ کی بنی ہوئی تھی جو کہ "High Ranking American Officials” استعمال کرتے تھے اور مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں تھی۔
آرٹیکل میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کا پختونستان تحریک سے بالکل کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ خارجہ محاذ پر لیاقت علی خان کی پالیسی تھی جو کہ امریکہ کے لیے بالکل ہی ناقابلِ برداشت تھی۔ اس لیے وہ بہر صورت لیاقت علی خان کو ہٹانا چاہتے تھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بیرونی ایجنڈا ’’اندرونی مدد‘‘ کے بغیر تکمیل کو پہنچ سکتا ہے؟ ایوب خان کی کتاب "Friends not Masters” سے یہ تھوڑی بہت دھندلی تصویر مزید صاف ہوجاتی ہے۔ ایوب خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’جب مَیں پاکستان واپس آیا، تو مجھے کراچی میں نئی کابینہ کے اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مَیں نے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین، چودھری محمدعلی، مشتاق احمد گورمانی اوردوسرے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان میں سے کسی نے نہ تو لیاقت علی خان کا نام لیا…… اور نہ ان کے منھ سے اس واقعے پر افسوس یا دردمندی کے دو بول ہی نکلے۔ گورنر جنرل غلام محمد بھی اس حقیقت سے بے خبر معلوم ہوتے تھے کہ ایک قاتل کی سنگ دِلانہ حرکت نے ملک کو ایک نہایت قابل اور ممتاز وزیرِ اعظم سے محروم کردیا ہے۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ انسان کیسا بے حس، بے درداور خودغرض واقع ہوا ہے۔ ان حضرات میں سے ہر ایک نے خود کو کسی نہ کسی طرح ترقی کے بامِ بلند پر پہنچا دیا تھا۔ وزیرِ اعظم کی موت نے گویا ان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ بات تو بے شک تلخ ہے، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سب لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ہو کہ وہ واحد ہستی جو ان سب کو قابو میں رکھ سکتی تھی، دنیا سے اُٹھ گئی ہے۔‘‘
یہاں پر ایران والے واقعے کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس کا مَیں نے اپنے کالم میں تذکرہ کیا ہے۔ "John Perkins” اپنی کتاب "Confession of an Economic Hit Man” میں لکھتے ہیں کہ ’’جب ایرانی وزیراعظم نے ایران کے تیل کے اثاثوں کو قومی تحویل میں لے لیا، تو اس پر مشتعل برطانیہ نے اپنے دوسری جنگِ عظیم کے اتحادی امریکہ سے مدد کی درخواست کی، تاہم دونوں ممالک ایران کے خلاف فوجی کارروائی سے ڈر رہے تھے۔ کیوں کہ سوویت یونین ایران کی مدد کو آسکتا تھا۔ لہٰذا امریکہ نے فوج بھیجنے کی بجائے "CIA” ایجنٹ "Kermit Rossevelt” کو ایران روانہ کیا۔ انھوں نے رشوت اور دھمکیوں کے ذریعے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ایسا ماحول بنایا کہ محمد مصدق غیرمقبول اور نااہل ہے۔ آخرِکار محمد مصدق معزول ہوئے اور امریکی نواز محمد رضا شاہ پہلوی ایران کے مختار کل بن گے۔‘‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد محمد رضا شاہ پہلوی نے ایرانی تیل کو دوبارہ پرائیوٹایز کیا۔
آزاد خارجہ پالیسی کے حوالے سے لیاقت علی خان کے بعد دوسرا نام ذوالفقار علی بھٹو کا آتا ہے۔ بھٹو کی داخلہ پالیسی پر آپ لاکھ اعتراضات کرسکتے ہیں…… لیکن خارجہ محاذ پر بھٹو کے سخت سے سخت ناقد بھی بھٹو کی پالیسی کے معترف ہیں۔ بھٹو نے کسی بھی بلاک کا حصہ بننے کی بجائے تمام طاقت ور ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کیے۔ بھٹو نے مسلم ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بامِ عروج پر پہنچایا جس کی وجہ سے آج بھی لاکھوں پاکستانی عرب ممالک میں پیسے کما کر نہ صرف اپنا گھر بار چلاتے ہیں…… بلکہ ملک کی معیشت میں بھی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح آج اگر پاکستان ایٹمی قوت ہے، تو اس کا سہرا بھی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ کوثر نیازی اپنی کتاب ’’اورلائن کٹ گئی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بھٹو جو بھی تھے، جیسے بھی تھے لیکن پاکستان کو ایک عالمی طاقت بنانے اور بین الاقوامی برادری میں اسے نمایاں ترین مقام دلانے کے شوق میں جنون کی حدتک مبتلا تھے اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا ان کا خواب تو بہت قدیم تھا۔ انہوں نے 1965ء میں جب وہ ایوب کابینہ میں وزیرِ خارجہ تھے، نہایت جذباتی اندازمیں کہا تھا: ’اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا، تو چاہے ہمیں گھاس اور پتے کھانا پڑیں یا ہم بھوکے رہیں لیکن ہم بھی ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ کیوں کہ ہمارے پاس اس کا کویٔ متبادل تو ہوگا۔ ایٹم بم کا جواب ایٹم بم ہی ہوسکتا ہے۔‘‘
1977ء کے بعد جب نو سیاسی جماعتوں نے مل کر "Pakistan National Alliance” (پی این اے) کے نام پر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا، تو 18 اپریل 1977ء کی شام وزیرِ اعظم نے قومی اسمبلی کے سامنے تقریباًپونے دو گھنٹے تقریر کی۔ اس خطاب کے کچھ نِکات میں یہاں بیان کرتا ہوں۔ بھٹو نے کہا: ’’ہاتھی (امریکہ) مجھ سے ناراض ہے۔ اس وقت ملک میں غیر ملکی کرنسی پانی کی طرح بہہ رہی ہے۔ ’’پی این اے‘‘ کے لیڈروں کے پاس اتنا دماغ اور صلاحیت نہیں کہ وہ تحریک کو یہاں تک لاسکتے۔ یہ سب کچھ بہت بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مداخلت کا نتیجہ ہے۔‘‘
بھٹو نے اپنی اس تقریر میں کہا کہ ہاتھی کا حافظہ بڑا تیز ہوتا ہے۔ میرا یہ جرم معاف نہیں کیا گیا۔ چین سے ہاتھی کے شدید اختلافات تھے۔ مَیں نے چین سے تعلقات بہتر بنائے، تو یہ میرا جرم بن گیا۔ مَیں نے اسلامی کانفرنس بلائی، تو اسے ملتوی کرنے کے لیے مجھ پر دباو ڈالا گیا۔ تیسری دنیا کا خیال پیش کرنے پر بھی ہاتھی سمجھتا ہے کہ مَیں اس کے لیے مصیبت بن گیا ہوں۔
کوثر نیازی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس تقریر سے بھی کہیں زیادہ سنگین اور سنجیدہ انداز میں انہو ں نے بیرونی مداخلت کا ذکر اپنے اس بیان حلفی میں کیا ہے، جو لاہور ہائی کورٹ کے رُو برو نصرت بھٹو کیس کے سلسلے میں انہوں نے داخل کیا تھا۔ وہ اپنے بیان کے پیراگراف نمبر 107 میں لکھتے ہیں: ’’اگست 1977 ء میں کسنجر نے لاہور میں مجھے دھمکی دی کہ اگر ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ پر مَیں نے پالیسی تبدیل نہ کی، تو مجھے خوفناک انجام کی عبرت ناک مثال بنا دیا جاے گا۔‘‘
تاریخ اس حوالے سے اور بھی بہت کچھ بتاتی ہے، جس کی طوالت کی وجہ سے میں یہاں ذکر نہیں کرسکتا، لیکن مختصر یہ کہ اس کے بعد بھٹو حکومت اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ سب ہمارے سامنے ہے۔
اس فہرست میں تیسرا نام اب عمران خان کا بھی شامل ہوگیا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر جو جنگ شروع ہوئی اور سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے جس طرح اس میں امریکہ کا ساتھ دیا، عمران خان شروع ہی سے اس کا ناقد تھا۔ ہر جگہ اس کے خلاف بات کرتا تھا جس کی وجہ سے اسے ’’طالبان خان‘‘ کا خطاب بھی ملا۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران میں جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا سی آئی اے کو سرحد پار کارروائی کی اجازت دیں گے؟ تو عمران خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ ’’بالکل نہیں!‘‘ ہم کسی بھی صورت امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دیں گے۔ اگرچہ عمران خان کے مخالفین کہتے ہیں کہ اس حوالے سے امریکہ نے کوئی بات نہیں کی، مگر مغربی مےڈیا خود یہ اقرار کررہا ہے کہ اس موضوع پر بات ہوئی تھی، مگر حکومت پاکستان سے اچھا رسپانس نہیں ملا۔ خیر، جو مخالفین اس بات سے انکار کر رہے ہیں، ان کے اپنے وزیرِ اعلا جناب حمزہ شہباز شریف خود عمران خان پر تنقید کرتے ہوے کہتے ہیں کہ ’’سپر پاؤر کو "Absolutely Not” کَہ کر عمران خان خطرناک کھیل کھیل رہا ہے!‘‘
عمران خان پاکستان کی نظریاتی اساس کی بات کرتا تھا۔ وہ اسلاموفوبیا کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اس نے مسلم ممالک کے سربراہان کو اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کے لیے خط لکھا۔ اس نے روس، چین اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے ڈالر کی بجائے علاقائی کرنسی میں تجارت کرنے کو کہا۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے اس نے روس سے 30 فیصد سستی تیل خریدنے کی بات کی جس کی تصدیق خود وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے ’’سی این این‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کی۔ پھر جب عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کے لیے تمام جماعتیں متحد ہوئیں، تو عمران خان نے اسے امریکی سازش قرار دیا اور کہا کہ امریکہ مجھ سے میری خارجہ پالیسی کی وجہ سے ناراض ہے۔ اس لیے مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔ اس کے جواب میں "ISPR” نے پریس کانفرنس کی جس میں اس نے عمران خان کے الزامات کی صحت سے انکار یا اس کی تردید تو نہیں کی، البتہ یہ کہا کہ سازش نہیں مداخلت ہوئی تھی۔ اب میں الفاظ کی اس ہیر ا پھیری میں نہیں پڑنا چاہتا…… لیکن جب میں امریکہ کی دوسرے ممالک میں سازش یا مداخلت کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں، پھر عمران خان کی خارجہ پالیسی کا جایزہ لیتا ہوں، جو ہر موڑ پر امریکی مفادات سے متصادم تھی اور ساتھ ساتھ تحریکِ عدمِ اعتماد کے دوران میں موجودہ حکومت کے لےڈران کی امریکہ کے حق میں مدح سرائی دیکھتا ہوں، تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ
’’دال میں کچھ کالا ضرور ہے!‘‘
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔