سائنسی ایجادات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ موسیقی کا ایک آلہ ہوا کرتا تھا جسے باجا کہتے تھے، جس میں ایک گول تھالی سی گھوما کرتی تھی اور لوگ اس کے گرد بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی جگہ ٹیپ ریکارڈر نے لے لی اور بڑے بڑے ٹیپ اور صندوق نما ریڈیو بہت کم گھروں میں ہوتے تھے۔ اکثر گاؤں میں ٹیپ ریکارڈ کے لیے چوکور قمیص سلوائی جاتی جس پر طیلے اور موتیوں سے کشیدہ کاری کی گئی ہوتی تھی اور موتیوں کی جھالریں اس سے لٹکتی رہتیں۔ شروع میں ایک بڑا بکسا نما ٹی وی ہوتا تھا جس کی چار ٹانگیں ہوتی تھیں۔ شروع شروع میں گاؤں میں ایک ہی نایاب قسم کا ٹی وی ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہمارے ایک بزرگ نے اپنے گاؤں چمتلئی کا قصہ سنایا کہ حجرہ میں رات کو سب لوگ باجا سن رہے تھے یا شاید ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ قریب ہی ایک چھت کی کچی منڈیر پر لیٹا میں بھی محظوظ ہو رہا تھا۔ میری عمر کوئی سات سال تھی۔ اچانک نیند نے غلبہ کیا اور میں کششِ ثقل کے قانون کے احترام میں چاروں شانے دھڑام سے حجرہ کے کچے صحن میں آٹپکا اور موسیقی کا سارا مزا کِرکِرا ہوگیا۔ اُس رات رہی سہی کسر ابا جان نے بھی پوری کردی۔ جب میں لنگڑا تا ہوا گھر پہنچا، تو میرے گرنے کی خبر گھر تک پہنچ چکی تھی۔ اباجان نے میری وہ دُھنائی کی کہ اُس کے بعد کبھی منڈیر پر چڑھنے کا نام نہیں لیا۔ راقم کو یاد ہے بچپن میں ہمارے بے حد اصرار پر ابو جان ایک بلیک اینڈ وایٹ ٹی وی لے کر آئے۔ اُن دنوں ٹی وی پر نیلام گھر، ففٹی ففٹی اور نایٹ رائیڈر نامی انگریزی ڈراما چلتا تھا۔ ٹی وی کے اتنے چینل نہیں ہوتے تھے اور اکثر رات گئے جب قومی ترانہ اور فرمانِ الٰہی کا آخری پروگرام ختم ہوکر نشریات بند ہوجاتی تھیں اور اسکرین پر ماسوائے مکھی مچھر نما جال نمودار ہونے کے اور کچھ نہ ہوتا، تو ہم ٹی وی کی جان چھوڑتے۔

انگریزی کا مشہور ڈراما نایٹ رائڈر۔ (Photo: brain-magazine.fr)

پچھلے دنوں ایک دوست نے اپنے پڑوسی کا نام لے کر بتایا کہ بچپن میں اُسے ایک ٹی ڈراما کا خبط سوار ہوا تھا۔ اُن کے گھر ٹی وی نہیں تھا، اس لیے پڑوسی کے ہاں دیکھتا۔ ایک دن اُسی پڑوسی کے گھر کی چھت پر مٹی ڈالنے کی مشقت کا کام تھا۔ موصوف نے اس اُمید پر کہ بعد میں گھر والے اُسے ڈراما دیکھنے کی بہ خوشی اجازت دیں گے، سارا دن سر پر تغاری رکھے مٹی ڈھوتا رہا اور جب ٹی وی دیکھنے کا وقت آیا، تو کسی بہانے انھوں نے انکار کر دیا۔ بے چارہ اپنے ارمانوں کا ماتم کرتا ہوا سر لٹکائے سوئے آشیانہ چل پڑا۔ اب تو ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی، وی سی آر کے قصے پارینہ ہوئے۔ اب تو ساری خصوصیات موبائل میں جمع ہوگئی ہیں۔ کیمرہ سے لے کر میوزک روم اور مووی تھیٹر سے لے کر نیٹ کیفے سب کچھ اسی چند انچ کی مشین میں سما گئے ہیں۔ چینلوں کی بھرمار ہے۔ اب تو چینل بدلتے بدلتے گھنٹوں لگ جاتے ہیں، مگر ان سائنسی ایجادات اور دوڑ نے انسان کو اپنوں سے بیگانہ کر دیا ہے۔ وہ آپس میں مل بیٹھنا، ایک دوسرے کے لیے وقت دینا، سب ماضی کے قصے ہوگئے۔ اب جسے دیکھو اپنی ہی دنیا میں الگ فیس بک میں مگن اپنوں سے بالکل دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتا ہے۔ ایک اخباری کارٹون نظروں سے گزرا تھا جس میں ایک مغضوب اور دھانسو قسم کی عورت ایک ناتواں شخص کو گردن سے پکڑ کر کمرے سے باہر صحن تک کھینچ لا رہی تھی اور بجلی کے تار اُس کے پیچھے پیچھے گھسیٹتے آ رہے تھے، نیچے لکھا تھا۔ ’’ہر روز یہی فیس بک؟ صبح سے چیخ رہی ہوں کہ منے کا پیمپر لے آؤ اور یہ کمرہ سے نکلتا ہی نہیں؟‘‘ تو کچھ شوہر بے چاروں کا تو یہ حال کر دیا ہے، فیس بک اور انٹرنیٹ نے۔
میرے خیال میں سائنس کی ایجادات کا استعمال اس وقت ہی فایدہ مند ہوسکتا ہے جب اسے مثبت طریقہ سے فارغ وقت میں کسی اچھے کام کے لیے استعمال کیا جائے۔ تاکہ گھر والوں کو بھی مناسب وقت اور توجہ مل سکے۔ دانا لوگ اپنی زندگی کا ایک ٹایم ٹیبل بناکر اوقات کو تقسیم کرلیتے ہیں اور اس طرح وہ گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو مناسب وقت دے کر اپنی معاشرتی و سماجی زندگی کو منفی اثرات سے محفوظ کرلیتے ہیں اور معاشرتی فواید سے تہی دامن نہیں رہتے۔ اور ایک صحت مند اور متوازن زندگی گزارتے ہیں۔ صحت مند کی اصطلاح سے چونکیے نہیں۔ جدید زمانہ کے مطابق صحت کی تعریف تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ ذہنی، نفسیاتی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی طور پر متوازن شخص کو صحت مند کہتے ہیں۔ ویسے بھی جب کوئی چیز اعتدال کی راہ سے ہٹ کر کی جائے، اُس میں کمی و بیشی کی جائے، تو پھر نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ میرے کئی دوست ہیں جن کی نظر یعنی بصارت موبائل پر انٹرنیٹ کی کثرت سے بہت زیادہ کمزور ہوگئی ہے اور وقت سے پہلے چشمہ لگا کر چار آنکھوں والوں یا ’’چشمک گروپ‘‘ میں شامل ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ موبائل پر انٹرنیٹ کی سایٹس چھوٹی اسکرین کے مطابق باریک تحریروں اور تصاویر یا مووی پرمشتمل مواد پیش کرتے ہیں اور اس کو دیکھنے کے لیے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اکثر ’’گوگل‘‘ پر بہت باریک اور چھوٹے لفظوں کا جال بصارت پر بہت ہی منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے موبایل پر ’’نیٹ‘‘ سے جتنا ہوسکے کم سے کم کام لیا جائے۔ کیوں کہ جان ہے، تو جہان ہے یا دوسرے لفظوں میں بصارت ہے، تو دیکھنے کی جسارت ہے، ورنہ سب کچھ غارت ہے۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔