ذاتی اسلحہ رکھنا پختون معاشرہ کی ایک اہم خاصیت ہے۔ سوات میں جدید آتشیں اسلحہ بین الاقوامی اسلحہ اسمگلروں کی وساطت سے پہنچا اور "بندوق ہر پختون کے لiے عزت و وقار کی نشانی بن گئی۔ وہ کم از کم اپنے لیے ایک بندوق کا حصول لازمی گردانتا تھا۔” پختون کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اپنی "پُرانی بیوی اور نئی بندوق سے محبت کرتا ہے۔” اس بڑی مقدار میں پختونوں کے پاس جدید اسلحہ کا ہونا برطانوی حکومت کے لیے باعثِ تشویش تھا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں کیے گئے ایک سرکاری تجزیہ میں کہا گیا: "حالاں کہ اس وقت امن و امان اور خوشحالی کے امکانات روشن ہیں، لیکن ایک مسئلہ خاصا توجہ طلب ہے اور وہ ہے ان قبائل کی طرف سے انتہائی قابل بھروسا اسلحہ کا حصول۔ قبائل کا طویل فاصلہ تک مار کرنے والا اسلحہ خریدنا بہت ہی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔ ہماری فلاحی اور رفاہی پالیسیوں کی وجہ سے ان برسوں میں تجارت اور عمومی خوشحالی میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ایک بڑی رقم ہر سال معاوضوں اور الاؤنسوں کی شکل میں ان لوگوں میں بانٹی جاتی ہے، لیکن اس سب کے باوجود اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ قبائل اپنی اس دولت کو اپنے علاقوں یا مغربی معیار کے مطابق اپنی ذاتی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہوں۔ وہ اب بھی صدیوں پرانے طرزِ زندگی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ آدمی سوچتا ہے کہ وہ سارا پیسہ جو اُن کو مل رہا ہے، وہ یہ لوگ اسلحہ خریدنے پر لگا رہے ہیں۔”
عبدالودود اپنی رعایا سے اسلحہ جمع کرنے کا منصوبہ شروع کرنا چاہتا تھا لیکن "اصل مشکل یہ تھی کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ بہرصورت یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، باالخصوص خوانین اور بااثر افراد سے اسلحہ لینا، لیکن عام آبادی سے بھی اس بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ آسانی سے اپنے ہتھیاروں سے دست بردار ہوجائیں گے۔” اس منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لیے اُس نے برطانوی حکومت کی مدد چاہی کہ کسی بغاوت یا ایسا کرنے سے انکار کی صورت میں وہ اُس کی مدد کو آئیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ اپنی طرف سے ایسی کوئی یقین دھانی کرانے کے لیے آمادہ نہیں تھا، حالاں کہ وہ اس منصوبہ کو مثبت اور برطانوی حکومت کے لیے بھی سود مند سمجھتا تھا۔
1928ء کے موسم گرما میں اس مقصد کے حصول کے لیے ڈلہ نظام (دھڑا نظام) اور جرگے کے ادارہ کو استعمال کیا گیا۔ لوگوں نے اپنا اسلحہ حوالہ تو کیا لیکن مکمل خوش دلی کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ دقت طلب پُرخطر مہم کسی کھلی مخالفت اور خون خرابہ کے بغیر انجام تک پہنچ گئی۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ کے گورنر "رالف گرفتھ” نے اسے باچا صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا۔ یہی رائے برطانوی حکومتِ ہند کی بھی تھی۔ اس لئے کہ "کسی پٹھان کے لیے سب سے قیمتی اثاثہ اُس کی بندوق ہے اور اُسے اس سے محروم کردینا کوئی چھوٹا کارنامہ ہرگز نہیں ہے۔” لیکن اس مہم کی کامیابی سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ لوگوں کے پاس اسلحہ بالکل موجود نہیں رہا، یا یہ کہ اب وہ کسی قسم کا اسلحہ نہیں رکھیں گے، غلط خیال ہے۔ وہ اسلحہ اب بھی رکھ سکتے تھے لیکن اُس کے لیے لائسنس ضروری تھا اور اس کی ایک خاص فیس دینی پڑتی تھی۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اس مہم کا مطلب علاقہ کو اسلحہ سے بالکل پاک کرنا ہرگز نہیں تھا، بلکہ اسے کچھ قواعد و ضوابط کا پابند بنانا تھا۔ لیکن طاقتور، بااثر لوگ اب بھی غیر قانونی اسلحہ رکھتے تھے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 208 تا 209 انتخاب)