سعودی عرب کی جانب سے عازمین حج کے لیے خصوصی سہولت کا پروگرام ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ وِژن 2030ء کے مطابق پانچ ممالک کے لیے فراہم کیا گیا ہے۔ ان پانچ ممالک میں تیونس، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائشیا کے دو لاکھ پچیس ہزار حجاج فائدہ اٹھائیں گے۔’’ روڈ ٹو مکہ ‘‘ پروگرام کے تحت عازمین حج کی امیگریشن، سامان کی بکنگ اور کوڈنگ ہوائی اڈوں سے ہورہی ہے، جہاں سے وہ حج پر روانہ ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ان کا سامان مکہ یا مدینہ میں ان کی رہائش گاہوں تک پہنچایا جائے گا، اور انہیں کسٹم اور امیگریشن کلیئرنس کے لیے سعودی عرب میں طویل انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ خادم الحرمین شریفین کی جانب سے عازمین حج کے لیے ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ پروگرام یقینا ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کو اس پروگرام میں چار ممالک کے ساتھ شامل کرنا عازمین حج کے لیے بہت سہولت کا سبب بنا ہے۔ اس سے پاکستانی حجاجِ کرام کو دیرینہ پریشانیوں و تکالیف سے نجات حاصل ہوگی، ان شاء اللہ۔
سعودی حکام کے مطابق سعودی پاسپورٹ کنڑول کا عملہ تمام فنی نیٹ ورک کے ساتھ روڈ ٹو مکہ پروگرام کے تحت آپریٹ ہونے والے ہوائی اڈوں پر موجود ہو گا اور وہ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے کمپیوٹر کے ذریعے ان تمام سفری دستاویزات کا جائزہ لے گا اور حجاج کے بورڈنگ کارڈ اور ضروری شناختی کارڈ کی چیکنگ کرے گا، تاکہ سعودی عرب میں حج ڈائریکٹوریٹ کا عملہ انہیں جلد از جلد اپنی رہائش گاہوں تک پہنچا سکے۔ یہ ایک انتہائی احسن اقدام ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اسلام کے اہم رکن ’’حج ‘‘کے موقع پر خادم الحرمین شریفین کی میزبانی پر سعود ی حکومت کے مخالفین کی جانب سے کوئی نہ کوئی ایشو اٹھایا جاتا ہے اور اسلامی دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے حجاجِ کرام کی میزبانی احسن انداز میں نہیں کی جاتی۔ یقینا یہ ایک منفی پروپیگنڈا ہے۔ کیوں کہ سعودی عرب اسلام کے اہم و مقدس فریضے کو بڑے احسن انداز میں نبھانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ تقریباً 30 لاکھ کے قریب حجاجِ کرام ہر برس حج ادا کرتے ہیں۔ لاکھوں افراد کی میزبانی سرزمینِ حجاز کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس لیے سعودی حکومت پوری کوشش کرتی ہے کہ لاکھوں حجاجِ کرام کو جتنی زیادہ سہولتیں فراہم کرسکیں، مہیا کی جائیں۔’’روڈ ٹو مکہ‘‘ بھی خادم الحرمین شریفین کی کوششوں کا احسن اقدام ہے۔
لاکھوں عازمین حج میں بڑی تعداد ایسے حجاج کی بھی ہوتی ہے جو پہلی مرتبہ حج پر آتے ہیں اور ان سے غیر دانستہ غلطیاں بھی سرزد ہوجایا کرتی ہیں۔ حج کے موقع پر زیادہ تر حادثات جلد بازی، بھگدڑ اور شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران میں ہوتے ہیں۔ گو کہ ہر ملک کے عازمینِ حج کو متعین جگہ اور وقت پہلے سے ہی بتا دیا جاتا ہے، لیکن بعض حجاج گروپ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کیمپوں کے منتظمین کی تھوڑی سے عدم توجہی کی وجہ سے حادثات رونما ہوجاتے ہیں۔ رمی کے دوران میں 2004ء کی بھگدڑ کے بعد سعودی حکومت نے جمرات کے پل کے آس پاس بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ شروع کیا تھا، جس میں اضافی راستے اور ہنگامی صورت حال میں نکلنے کے اضافی راستے بنائے گئے۔ جمرات کے تین ستونوں کی جگہ اب دیواریں لگائی گئی ہیں، تاکہ رمی آسان ہوسکے۔ اس کے علاوہ رمی کے لیے پل کی پانچ منزلیں بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ اب رمی کے دوران میں ماضی کے مقابلے میں یہ کافی کم ہوچکی ہیں۔
قدرتی طور پر بیماریوں سے بھی ضعیف عازمین حجاج کی وفات کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ نیز مسجد الحرام کی توسیع کے دوران میں 2015ء میں کرین حادثے میں 107 حجاجِ کرام جاں بحق ہوئے تھے، جس کے بعد مخصوص لابی نے خادم الحرمین شریفین کے خلاف دنیا بھر میں منفی پروپیگنڈا کرکے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سازشی منصوبوں کو امتِ مسلمہ نے ناکام بنا دیا۔ اسلام کے اہم رکن حج کے خلاف دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے، جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے۔‘‘ (آل عمران:96)
صحیح مسلم میں حضرت ابوذر سے حدیث مروی ہے کہ: ’’میں نے رسول اکرمؐ کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ نبیؐ نے فرمایا: مسجد حرام! مَیں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی؟ نبیؐ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ! مَیں نے نبیؐ سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان میں کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبیؐ نے فرمایا: چالیس برس!
570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانروا ابرہہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ لیکن سورۂ فیل میں ابرہہ کی فوج کا جو حال اور بربادی کا ذکر ہے، اسے اللہ کے گھر کو نقصان پہنچانے کی سازش کرنے والوں کے لیے تاقیامت محفوظ کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے: ’’کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش اور مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔‘‘ (سورۃ الفیل)
مسجد الحرام کے ساڑھے 26 ارب ڈالرکی لاگت سے توسیعی منصوبے سمیت حجاجِ کرام کو مکہ سے مدینہ لے جانے کے لیے 2018ء میں مکہ اور مدینہ کو آپس میں ملانے کے لیے تقریباً آٹھ ارب امریکی ڈالر سے تیار ہونے والی ہائی سپیڈ ٹرین کا افتتاح ہوچکا ہے۔ سعودی عرب میں یہ اپنی نوعیت کا مہنگا ترین اور اولین منصوبہ ہے۔ چار سو پچاس کلومیٹر طویل حرمین ریلوے کے اس منصوبے سے سالانہ ساٹھ ملین مسافر فائدہ اٹھائیں گے۔ سعودی ولی عہد کے جدت پسند پروگرام وِژن 2030ء کے تحت سعودی عرب میں اصلاحات پربھی تیزی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں جب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ جیسے احسن پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی حکومت عازمین حج کی تکالیف و مسائل کا مکمل ادارک رکھتی ہے اور امتِ مسلمہ کو اہم رکن کی ادائیگی کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت پہنچانے کے عزم کو عملی جامہ پہنانے کے وعدے کو پورا بھی کررہی ہے۔ اس بات کی امید ہے کہ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ سے پاکستان سمیت دیگر چار ممالک کے عازمینِ حج بھرپور استفادہ کریں گے ۔
اسی طرح دیگر شعائر کے دوران میں حجاجِ کرام صبر و تحمل کے ساتھ عجلت و افراتفری کے بجائے ’’خادمین‘‘ کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے سے خود کو بھی زحمت سے بچائیں گے اور دیگر عازمینِ حج کو بھی کسی غیر دانستہ حادثے سے بچانے کے لیے حج کے تمام شعائر کو درست طریقے ادا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ بیماریاں یا قدرتی آفات سمیت حکومت یا نجی حج آپریٹرز کی جانب سے حجاجِ کرام کو ماضی میں تکالیف کا سامنا رہا ہے۔ اس بار امید کی جا رہی ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہوگا اور عازمینِ حج کو بدا نتظامی یا کسی کوفت سے دوچار نہ ہونے دیں گے۔ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ پروگرام میں پاکستان کو شامل کرنا سعودی حکومت ایک اچھا اقدام اور بہترین تحفہ ہے۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔