رمضان کا مقدس مہینا آخری عشرے میں داخل ہوچکا ہے…… اور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آخر مقصد رمضان ہے کیا……؟
مَیں کوئی مذہبی سکالر تو نہیں، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ظاہری طور ادا کی جانے والی عبادات جن میں روزہ اہم ترین ہے، کا بہرحال کچھ مقصد ضرور ہے۔ وگرنہ خدا کو دن بھر مخلوق کو بھوکا پیاسا رکھنے میں کیا دل چسپی ہوسکتی ہے؟
میرے خیال میں روزے کا بنیادی مقصد انسان کے اندر خوفِ خدا بیدارکرنا ہے۔ ساتھ یہ مشق آپ کے اندر صبر و استقامت، جذبۂ قربانی اور مخلوقِ خدا کی خدمت کی چاہت پیدا کرنے کا شوق پیدا کرتی ہے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
روزہ آپ کو خالق کے قریب کرنے کا باعث بنتا ہے…… اور جب بندہ، خالق کے قریب ہو جاتا ہے، تو اُس کے اندر تقوا و پرہیز گاری زیادہ پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی روزہ کا مقصد اور یہی رمضان کی تعلیمات ہیں……!
لیکن بہت افسوس کے ساتھ ہم میں سے اکثریت مذکورہ تعلیمات پر پوراکیا اترتی، اُن کو شاید ان تعلیمات کا ادراک ہی نہیں۔ اُن کو علم ہی نہیں کہ اس وجہ سے جو روزہ کے مقاصد ہیں، اُن کو حاصل کرنے کی بجائے ہم رمضان کے مقدس ماہ میں بالکل اس کے اُلٹ چل رہے ہیں۔
رمضان ہم میں صبر، جذبۂ قربانی اور قربتِ خداوندی کی بجائے غصہ، بگاڑ اور نمود و نمایش کا باعث بن رہا ہے۔ ہم رمضان کو بھی اپنے معاشی، معاشرتی بلکہ سیاسی مقاصد کء لیے استعمال کرنا اپنی عقل مندی سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو چند ایک خرابیاں ہمارے معاشرے میں جنم لے چکی ہیں، اُن کا ذکر اس گزارش کے ساتھ تحریر کرنا ضروری ہے کہ آئیں! مجھ سمیت سب ان کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ویسے تو ہم میں بحیثیتِ مجموعی رمضان میں بے شمار خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں، یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ہماری خامیاں واضح اور ہمارا ضمیر بے نقاب ہو جاتا ہے…… لیکن چند ایک معروف یہ ہیں۔ آپ ان کو پڑھ کر اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں آپ میں بھی یہ موجود ہیں یا نہیں۔
٭ غصہ اور برداشت ختم ہونے کا رویہ:۔ روزے کا بنیادی درس ہی صبر و تحمل ہے، لیکن ہماری اکثریت اس سے کوسوں دور ہے۔ کچھ لوگ تو نارمل مطلب روزہ کے بغیر شاید بہت مہذب ہوتے ہیں، لیکن روزہ رکھ کر وحشی بن جاتے ہیں۔ اور تو چھوڑیں، اُن کے لیے اُن کا خاندان ناقابلِ براداشت ہوجاتا ہے۔ عصر کے بعد گھر میں بیوی حتی کہ اُن کے اپنے بچے سہمے سہمے بیٹھے رہتے ہیں۔ یعنی کہ بے شک وہ بھی روز دار ہوتے ہیں، لیکن اُن پر سربراہِ خاندان کا ایک شدید نفسیاتی دباو ہوتا ہے کہ اگرذرا سا بھی اُن کے مذاج کے خلاف کوئی کام ہوگیا، تو اُن پر قیامت وارد ہو جائے گی۔
اب میرا ایسے حضرات سے یہ جائز سوال ہوگا کہ آپ اگر اپنا محاسبہ خود نہیں کرسکتے، تو بے شک کسی عالم یا مذہبی سکالر سے پوچھ لیں کہ کیا اس عادت یا فطرت کے ساتھ آپ کا روزہ رکھنا بہتر ہے یا نہ رکھنا مناسب ہوگا؟
٭ فضول وقت گزاری:۔ ایک بڑی مکروہ عادت ہم میں یہ بھی ہے کہ ہم روزہ رکھ کر اپنی ذمے داریوں سے ممکنہ طورپر جان چھڑانا چاہتے ہیں…… جو کہ شرعی، قانونی یا اخلاقی طور پر مناسب نہیں۔ لیکن اس محفوظ شدہ وقت کو بھی عبادات اور وظائف وغیرہ میں استعمال کرنے کی بجائے فضول کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ دن بھر کچھ لوگ سوشل میڈیا پر فضول وقت گزارتے ہیں۔ کچھ فلم بینی میں مشغول رہتے ہیں اور بہت سے دوست تو اﷲمعاف کرے، دن بھر کام نہ کاج، نہ نماز، نہ تسبیح…… بس تاش کی بازی میں مشغول رہتے ہیں۔
٭ روزہ بطورِ جواز:۔ ایک اور ہم میں بہت بڑی منافقت یا کم زوری کَہ لیں اور وہ یہ کہ ہم اپنی تمام تر سستی، کوتاہی، بے پروائی بلکہ زیادتی کو بھی روزہ سے نتھی کرلیتے ہیں…… یعنی اپنی غلطیوں پر شرمندہ اور ان کو درست کرنے کی بجائے یہ جواز گھڑ لیتے ہیں کہ روزہ کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ تاکہ ہم معمول کی سرزنش سے بھی محفوظ ہو جائیں اور کچھ ہم دردی مفت میں حاصل کرلیں۔
٭ نمود و نمایش:۔ مزید یہ بات بھی کافی قابلِ فکر ہے کہ روزے کا مقصد جن برائیوں کا خاتمہ ہے، وہ برائیاں ہم بطورِ خاص رمضان میں کرتے ہیں جن میں سے ایک نمود و نمایش ہے۔ رمضان کے دوران میں اِفطار پارٹیوں کا کلچر اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ ہر شخص اپنا سوشل سٹیٹس دکھانے پر مجبور ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، ایک دفعہ میرے ایک دوست نے بہت دل چسپ معلومات دی۔ وہ کہتے ہیں کہ اِفطار پارٹیوں کے اکثر میزبان و مہمان بغیر روزہ کے ہوتے ہیں، لیکن وہاں کھانا پکانے والے اور سجانے والے اکثر ملازمین روزہ سے ہوتے ہیں اور اُن بے چارے روزہ داروں کو وہ کچھ بچا کچھا ملتا ہے کہ جو روزہ خوروں سے بچ جاتا ہے۔
ایک اور بہت ہی قابل مذمت حرکت جو ہم لوگ کرتے ہیں، وہ مساجد و محافل میں جہاں بہت لوگ ہوتے ہیں کہ جن میں سے اکثر غریب سفید پوش ان کے سامنے اپنے افطار و سحر کا بیان بہت فخر سے کرتے ہیں…… مثلاً: ہمارے ایک دوست تھے، وہ باقاعدہ کسی محفل کی تلاش میں رہتے اور جہاں اُن کو 4، 6 اشخاص بیٹھے مل جاتے…… وہ وہاں جا کر اپنا مینو بتانا بہت ضروری سمجھتے تھے۔ نیز اُن کے بتانے کا انداز بھی بہت تکنیکی ہوتا تھا…… یعنی وہ براہِ راست یہ نہیں کہتے تھے کہ مَیں نے فُلاں فُلاں چیز کھائی…… بلکہ بہت مہارت سے بیان کرتے کہ آج کھیر بہت ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ بریانی میں مرچیں کچھ زیادہ ہی پڑگئی تھیں۔ وہ دیسی مرغی بہت دور سے لائے تھے۔ بچوں کی ضد پر ان کو پیزا کا آرڈر کرنا پڑا وغیرہ وغیرہ۔ اُن کے انداز سے یہ واضح نظر آتا تھا کہ اُن کا مقصد محض دوسرے لوگوں کو متاثر کرنا اور اُن پر اپنی دولت کی دھاک بٹھانا ہے۔
٭ روزہ بطورِ گواہ یا ضامن:۔ رمضان میں ایک اور مسئلہ جو ہماری قوم سے انتہا درجے پر منسلک ہے وہ یہ کہ ہم اپنے خالصتاً دنیاوی معمولات میں روزہ کی آڑ لے کر اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً: منافع خور تاجران سے لے کر سیاست دانوں تک، ٹیکسی ڈرائیوروں سے لے کر ٹریول ایجنٹوں تک ہر شخص اپنی بات اس جملے سے شروع کرتا ہے کہ ’’بھئی! یقین کرو میں روزہ سے ہوں!‘‘ اور اس کے بعد وہ عوام کی کھال اُتارنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ یعنی اس کو یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ وہ غلط بیانی کرکے عوام کو گم راہ کر رہا ہے، لیکن اس کے باجود وہ جان بوجھ کر روزہ کی آڑ میں یہ کام کرتا ہے۔ پھر بھی اس بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ اُس کا روزہ ہے جو اُس کے لیے یومِ آخرت میں باعثِ نجات ہوگا۔
٭ بد پرہیزی اور زیادتی:۔ عمومی طور پر یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ اکثر لوگ سحری میں روٹین سے ہٹ کر انواع و اقسام کے کھانے ٹھونس لیتے ہیں جب کہ اِفطار کے وقت تو ہوٹر یا اذان کی آواز سنتے ہی کھانے کو دشمن سمجھ کر حملہ کر دیتے ہیں۔ سو اسی وجہ سے وہ اپنی ذات کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر لیتے ہیں۔ حالاں کہ اکثر اطبا اور ڈاکٹر حضرات کی یہ مشترکہ رائے ہے کہ روزہ صحت کے لیے بہت مثبت نتائج پیدا کرتا ہے، لیکن اگر طریقہ سے کھانے پینے کی مقدار کا تعین ہو، لیکن اگر بدپرہیزی کریں گے، تو یہ مختلف نتائج پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ عید آنے تک اپنے اندر کولسٹرول، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ کا کافی اضافہ کرلیتے ہیں۔ المختصر اس کے علاوہ بھی ایسی ڈھیر ساری برائیاں ہیں کہ جو ہم رمضان میں کرنے کی تیاری شعبان سے ہی کر نا شروع کر دیتے ہیں۔
اب آئیں ذرا غور کریں کہ درجِ بالا برائیاں جو اوپر لکھی گئی ہیں یا ان کے علاوہ کچھ اور بھی…… تو کیا یہ کم زوریاں ہم میں ہیں؟ اور اگر آپ دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہے، تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔
آخر میں خاص کر اپنے تاجر حضرات کو اس جانب متوجہ ضرور کرنا چاہتے ہیں کہ رمضان کا مہینا ایثار و قربانی کا اور صبر و استقامت کا مہینا ہے۔ سو اس ماہ میں مخلوقِ خدا کی خدمت اور عوام سے تعاون کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ اپنے دین اور اپنے اسلاف سے کچھ سیکھ نہیں سکتے، تو کم از کم غیر مسلم لوگوں سے ہی سیکھ لیں…… یعنی اکثر یورپ اور مغرب کے ممالک میں مذہبی تہواروں جیسے کرسمس وغیرہ پر نسبتاً زیادہ سہولت دی جاتی ہے۔ حتی کہ ہم نے سوشل میڈیا پر آسٹریلیا کے شہر برسبین اور اٹلی کے شہر میلان کی تصاویر دیکھی ہیں کہ جہاں بڑے بڑے تجارتی مراکز پر ’’خصوصی رمضان آفر‘‘ لگائی گئی ہے اور مختلف اشیا خصوصاً اشیائے خورو نوش پر خصوصی بچت دی جا رہی ہے…… جب کہ ہمارے ہاں رمضان کی آمد کو ’’سیزن‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی سال بھر کی کسر اس مقدس ماہ میں پوری کرنا ہے۔ آپ نے میلان یا برسبین کی طرح کیا کرنا ہے…… یہاں تو حالت یہ ہے کہ پشاور شہر میں ایک غیر مسلم یعنی سکھ مذہب کے ایک دکان دار کو اس وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ رمضان میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کیوں نہیں کرتا تھا؟ کیا یہ واقعہ ہمارے لیے انتہائی قابلِ افسوس نہیں کہ ایک غیر مسلم تو رمضان کا احترام کرے اور روزہ داروں کو آسانی پہنچانا چاہے،لیکن ہمارے محراب سے جبیں مزین کرنے والے حاجی، صوم و صلوات کے پابند مسلمان اُس کو قتل کردیتے ہیں۔
بہرحال ہماری آخر میں بس یہی گزارش ہے کہ رمضان میں سحری سے لے کر مغرب تک کھانے پینے سے پرہیز کرنے سے قبل کم از کم ایک بار رمضان کا فلسفہ یا مقصد پڑھ لیں…… اور اگر پڑھ نہیں سکتے، تو کسی بڑے عالمِ دین سے معلوم کرلیں۔ اس کے بعد اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم رمضان کے بنیادی مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور روزہ رکھ کر منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، غیبت، کام چوری، جھوٹ اور فراڈ وغیرہ جیسی برائیوں سے خود کو روک نہیں سکتے، تو پھر میرا مشورہ مفت ہے آپ کو کہ بہتر ہے کہ خواہ مخواہ دن بھر بھوکا پیاسا رہ کر خدا اور خدا کی مخلوق پر احسان مت جتلائیں۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کا مقصد آپ کے اندر تقوا، استقامت، پرہیز گاری اور اخلاص پیدا کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ اسلام محض عبادات کے نام پر آپ کو بھوکا پیاسا رکھنا یا کچھ جسمانی مشق کروانا چاہتا ہے۔ اس لیے اس پہلو پر بے شک ایک دفعہ غور کیا جائے۔
ہم تو بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔