تاریخ شاہد ہے کہ بھارتی حکومت ابتدا سے سیکولرازم کا نام نہادنعرہ لگا کر دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکتی چلی آ رہی ہے۔ تقسیمِ ہند سے لے کر اب تک بھارت کے مختلف مقامات پر سرکار کی درپردہ سرپرستی میں سیکڑوں مسلم کش فسادات ہوئے ہیں، بلکہ بھارت ہمیشہ سے اقلیتوں کے لیے جہنم زار بنا رہا ہے۔ یہاں اقلیتوں کی جان و مال اور عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں، جس کی زندہ مثال مسلمانوں کی تاریخی ’’بابری مسجد‘‘ ہے جو ہندوؤں کے دست برد سے محفوظ نہیں رہی۔
یہ 6 دسمبر 1992ء کا زمانہ تھا جب بھارت کے طول و عرض سے ہندو انتہا پسند مسلمانوں کی عظیم و تاریخی بابری مسجد کو ڈھانے ایودھیا کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ ان میں مذہبی جنونی اور جوشیلے افراد شامل تھے، جو قافلوں کی صورت میں ملک کے کونے کونے سے رواں دواں تھے۔ وہ مذہبی جذبات سے مغلوب تھے اور پُرامن اقلیت مسلمانوں کے خلاف دل آزار نعرے لگا رہے تھے۔ اکثریت کے پاس چھپے ہتھیار بھی تھے۔ تین لاکھ جنونی ہندو جب ایودھیا میں واقع بابری مسجد پہنچے، تو میناروں پر چڑھ اسے یکے بعد دیگرے گرا دیا اور پھر مسجد کو ڈھانے کی غرض سے اسے کافی نقصان پہنچایا۔ مسجد پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد اس میں اپنے ساتھ لائی ہوئی مورتیوں کو نصب کر دیا۔ اس موقع پر بھارتی پولیس خاموش کھڑی دور سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ تاریخ کو جھٹلایا گیا اور پُرامن اقلیت یعنی مسلمانوں کی تاریخی مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ سب اس ملک میں ہوا جو سیکولرزم اور جمہوریت کا دعویٰ دار اور علمبردار ہے۔
اس واقعہ کے بعد مسلمانوں نے انصاف مانگنے اِلہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ستمبر 2010ء میں عدالت نے انوکھا فیصلہ سنایا، جس سے مسلمان نہایت مایوس ہوئے۔ یہ کہ ’’بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کیا جائے گا اور مسلمان قریبی میدان میں مسجد تعمیر کریں گے۔‘‘ اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں اپنا کیس دائر کردیا جو اب تک ’’فیصلہ طلب‘‘ ہے۔
ملک کے ایک قومی روزنامے کے ایک کالم نگار نے بابری مسجد کیس پر موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا ہے کہ مودی سرکار پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندو انتہا پسندوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، اگر چہ وزیراعظم کھل کر اس حوالہ سے سامنے نہیں آتے، مگر در پردہ انہوں نے مندر کی تعمیر کے لیے مذموم کوششیں شروع کررکھی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کانچی پیٹھ شنکر اچاریہ جو ہندوؤں کے معروف مذہبی رہنما ہے اور بھارتی وزیراعظم کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، کو یہ مشن سونپا گیا ہے کہ وہ مسلمان علما سے ملاقاتیں کرکے انہیں اس فارمولے پرراضی کریں کہ وہ آل انڈیا پرسنل لا بورڈ سپریم کورٹ میں دائرمقدمہ واپس لیں اور ہندوؤں کو اسی جگہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیں، جہاں پہلے بابری مسجد تھی۔ اس کے بدلے میں وہ مسجد کی تعمیر کے لیے مندر کی جگہ سے دور ایودھیا میں ہی نہ صرف زمین دیں گے، بلکہ اس مقصد کی خاطر وہ اپنے سروں پر اینٹیں بھی اُٹھانے کو تیار ہیں۔
ان تمام کوششوں کامقصد یہ ہے کہ وہاں ہندو پریشد منصوبے کے مطابق ایک بڑا رام مندر تعمیر کیا جاسکے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے ہر بار ان کے مطالبات کو ٹھکرایا، لیکن اس کے باوجود ہندو انتہا پسند مختلف طریقوں سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہندو پریشد اور دوسری انتہاپسند تنظیموں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف ایک قطعۂ زمین کا مسئلہ نہیں بلکہ بابری مسجد سے مسلمانوں کا دینی تشخص اور بنیادی حقوق وابستہ ہیں۔
ضمیمہ:۔ چار سال پہلے دوبئی میں وزیراعظم ہند، نریندر مودی کے ہاتھوں ایک مندر کا افتتاح ہوا تھا۔ اس تقریب میں دوبئی کے حکمران بھی شریک تھے بلکہ ایک اخباری خبر کے مطابق دُبئی کے حکمران نے مندر کے لیے قیمتی بت بھی عطیہ کیے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ایک اسلامی عرب ملک میں بت کدے کا قیام ہوتا ہے اور تقریب میں مسلمان حکمران شرکت بھی کرتا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں کا یہ حال ہو، تو پھر گلہ کس سے کریں؟ ’’مسلمانان درگور، مسلمانی در کتاب!‘‘

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔