لفظ ’’دِوالا‘‘ کو عام طور پر ’’دیوالیہ‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نور اللغات دونوں کے مطابق درست املا ’’دِوالا‘‘ ہے اور اس کے معنی ’’دیوا‘‘ اور ’’چراغ‘‘ کے ہیں۔ اس طرح لفظ ’’دِوالا‘‘ کو ’’ادائے قرض کی ناقابلیت‘‘ اور ’’خسارہ‘‘ کے مفہوم میں بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔
آگے تفصیل میں یہ صراحت بھی درج ہے: ’’پہلے دستور تھا کہ جب کسی شخص کو ٹوٹا آتا تھا (یعنی کنگال ہوجاتا تھا)، تو وہ دن کو اپنی دکان میں چراغ جلا دیتا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے یہاں دِوالا ہوگیا، اب کچھ نہیں رہا۔‘‘
اس حوالہ سے نوراللغات میں جرأتؔ کا یہ شعر بھی درج ہے:
داغ بر دل جو ترا چاہنے والا نکلا
تو چراغانِ دِوالی کا دِوالا نکلا
نور اللغات کے مطابق ’’دِوالیا‘‘ اور فرہنگِ آصفیہ کے مطابق ’’دِوالیہ‘‘ ایسے شخص کے لیے مستعمل ہے جس کا دِوالا نکل جانے کے سبب کار و بار بند ہوگیا ہو۔