زیادہ تر علما کے نزدیک سب سے زیادہ قدیم تمدن دو آبہ، دجلہ و فرات کی ہے۔ یہاں جس سب سے پہلی قوم یا نسل کے آثار ملتے ہیں، وہ سومیری (Sumerian) کہلاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے قدیم بابلی بھی کہتے ہیں۔ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہوسکی کہ یہ لوگ کہاں سے آئے تھے لیکن کم از کم اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ لوگ کسی پہاڑ یا پہاڑی سلسلے سے آئے تھے۔
مولانا سلیمان ندوی کے نزدیک یہ لوگ تورانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں (ارض القرآن)۔
جناب سبطِ حسن لکھتے ہیں کہ یہ لوگ زراعت کار تھے (ماضی کے مزار)۔
قدیم اساطیر کے ایک بہت بڑے عالم ابنِ حنیف لکھتے ہیں کہ عراق میں لکڑی اور پتھر نہ ہونے کے سبب ان کی آبادیوں میں مٹی اور کچی اینٹوں کا استعمال کیا گیا (قدیم ادب)۔
اس تہذیب کے آثار زیادہ تر مٹی کی تختیوں پر ملتے ہیں جن میں ’’میخی‘‘ یا ’’پیکانی‘‘ رسم الخط کا استعمال ہوا ہے۔ تمام مجموعی آثار سے صاف طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ زرعی یا خاکی یا آدم کے گروہ سے متعلق رہے جب کہ ان پر حملہ آور اکثر صحرائی خانہ بدوش لوگ رہے ہیں۔ ویسے بھی دجلہ و فرات کی درمیانی زمین زراعت کے لیے موزوں ترین تھی، جسے عام طور پر ’’ہلال زرخیز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یونانی اسے ’’میسوپوٹامیا‘‘ (MesuPotemia) کہتے ہیں، جس کے معنی دو آبہ کے ہیں۔ اس مفہوم کو عربی میں ’’بین النہرین‘‘ کے لفظ سے بیان کیا جاتا ہے۔ تمام آثار و شواہد کی روشنی میں اس تہذیب کی ابتدا سات ہزار قبلِ مسیح سے ہوتی ہے۔ تقریباً یہی زمانہ آدم یا آدمیت کا بھی بتایا جاتا ہے، جنہیں خاکی کہا گیا ہے۔
سومیریوں کے اس خطے میں اور بھی اقوام آئی ہیں جن میں عکادی، بابلی، اشوری اور کلدانی وغیرہ شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے مذہبی عقائد میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ (سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب “پشتون اور نسلیاتِ ہندو کُش” مطبوعہ “سانجھ پبلی کیشن” صفحہ نمبر 109 اور 110 سے انتخاب)