خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر
جس طرح خود ستائی اور خود نمائی جب حد سے بڑھ جائے، تو نفسیاتی عارضہ ہوتی ہے۔ اسی طرح خود کو کوسنا، خود کو کم تر قرار دینا بھی اپنے انفرادی تجزیے سے بڑھ جائے، تو نفسیاتی عارضہ ہی لگتا ہے۔ نوآبادیت یا پس نوآبادیت کے کئی دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ زیرِ تسلط لوگوں میں خود سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور اس نفرت کا اظہار ایسے مواقع میں زیادہ ہونے لگتا ہے، جب کسی مزاحمت کا وقت آجاتا ہے۔
جس دن سے ’’دریائے سوات بچاو تحریک‘‘ کا پہلا اجلاس ہوا ہے، اُسی روز سے مسلسل سنتے آرہے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں، جب کہ ہمارے مقابلے میں فُلاں جگہوں کے لوگ زیادہ تگڑے اور متحرک ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مذکورہ لوگوں نے ایسے پن بجلی منصوبوں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ اجتماعی فوائد لیے ہیں۔
یہ باتیں بغیر کسی خاص تحقیق کے کی جاتی ہیں۔
شمالی پاکستان میں جہاں کہیں ایسے منصوبے بن رہے ہیں، وہاں مقامی لوگوں کی حالت ہم سے زیادہ خراب ہے۔ ان لوگوں نے کوئی خاص مزاحمت نہیں کی اور نہ کوئی تحریک ہی چلائی ہے۔ ہاں وہاں کچھ افراد نے اپنی ذاتی زمینوں یا مکانوں کے لیے گروہی احتجاج ضرور کیا ہے، تاہم اجتماعی طور پر ایسے علاقوں میں کسی پالیسی سطح کی بات نہیں ہوئی ہے۔
شمالی پاکستان میں چترال، گلگت بلتستان، سوات، دیر، کوہستان سب شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کئی منصوبے بن رہے ہیں۔ کہیں پہ کسی ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر نے کسی کو کاغذ پر کچھ لکھ کر وقتی طور پر ٹرخایا ہے۔ ایسے کوئی فوائد مستقل طور پر نہیں ملے ہیں۔ البتہ ان علاقوں میں چند جیسے چترال (دو ضلعے) اور کوہستان (تین ضلعے) ضلعی سطح پر انتظامی اکائیاں ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ مقامی منصوبوں میں مقامی ہونے کو ضلعی سطح پر قرار دیا گیا ہو۔ تاہم سبھی اچھی پوسٹوں پر باہر سے لوگ آکر ان منصوبوں میں ملازمت کر رہے ہیں۔ کہیں بھی، کسی کو بھی فری یا سستی بجلی کی فراہمی نہیں ہے۔
2011ء اور 2012ء کو جب یہاں بحرین میں ’’درال ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘‘ کے خلاف مزاحمت ہوئی، تو اس کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی ماہرین نے سراہا اور اس کو شمالی پاکستان میں ایسے پن بجلی منصوبوں پر پہلی منظم مزاحمت قرار دیا، جس کی رو سے ایشیائی ترقیاتی بنک نے اس وقت کی حکومت سے اپنا 7 ارب روپے کا معاہدہ بھی توڑ دیا تھا۔ یہی منصوبہ اب بھی حکومتوں اور اس کے متعلقہ اداروں کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے کہ سوات میں جہاں بھی کسی پن بجلی منصوبے کا ذکر ہوتا ہے، تو درال کا نام اس سے پہلے لیا جاتا ہے۔
اب یہ ’’دریائے سوات بچاو تحریک‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ نتیجہ جو بھی آتا ہے، یہ مزاحمت رنگ لائے گی۔ مثالی بھی ہے۔ ہر سطح پر کام ہورہا ہے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ، ملکی اداروں کے ساتھ اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بھی۔
نوجوان بھی سرگرم ہیں، بوڑھے بھی ہیں اور علاقائی سیاسی بڑوں کی تاید بھی حاصل ہے۔ کچھ رُکاوٹیں ضرور ہیں، تاہم لوگ پُرجوش ہیں۔
ابھی کل پرسوں نوجوانوں کا جرگہ ہوا۔ مایوسی کا عنصر وہاں بھی نمایاں دکھا۔ تاہم ہم یہ بھولتے ہیں کہ تحریک کو شروع ہوتے ہوئے تین ہفتے ہی ہوئے ہیں۔ وقت درکار ہے۔ کمیونٹی ضرور بیدار ہوگی۔
جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں، اس تحریک کی مرکزی لیڈر شپ ٹیم پر زیادہ ذمے داری آتی ہے کہ وہ ایک طرف گروپ کی شکل میں قیادت کرے، تو دوسری طرف تحریک کو ٹیم کی صورت میں لیں۔ اسی طرح ان کو مالیات کا بھی کوئی نظام بنانا چاہیے۔ اس میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے ۔
نوجوانو! خود اعتماد رہو۔ آپ کرسکتے ہیں۔ آپ نے کرنا بھی ہے۔ اپناتجزیہ ضرور کیجیے، لیکن کچھ نہ کرکے خود کو نہ کوسیں اور نہ بڑوں کو کوسیں۔ آگے بڑھیں، وقت آپ کا ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔