گذشتہ دنوں میں نے ایک افسوناک خبر سنی کہ معروف اداکار سہیل اصغر اب ہم میں نہیں رہے۔ سہیل اصغر اسٹیج اور ٹیلی وِژن کے معروف اداکار تھے۔ انتہائی سنجیدہ مزاج اور تعلیم یافتہ انسان تھے۔ درحقیقت ان کی اول آمد بطورِ مصنف تھی لیکن بعد میں بقول ان کے وہ حادثاتی طور پر اداکار بن گئے۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ خدا ان کے گناہوں کو معاف کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے۔
مرحوم سہیل اصغر نے ایک ٹی وی ڈراما میں معروف ادکارہ شکیلہ قریشی کے بھائی کا کردار ادا کیا تھا…… جس میں شکیلہ قریشی طوائف بنی تھی اور سہیل اصغر ان کا ایک نشئی بھائی۔ ڈراما میں سہیل اصغر کا ایک مکالمہ بہت مقبول ہوا تھا کہ جس میں وہ مخصوص انداز میں سرائیکی زبان میں کہتے ’’صدقے تھیواں!‘‘ جس کا اُردو ترجمہ بنتا ہے: ’’صدقے جاؤں!‘‘ لیکن ڈراما میں سہیل اصغر یہ فقرہ ہمیشہ طنز کرتے وقت بولتے تھے۔ ان کا یہ مکالمہ بے اختیار میرے لبوں پر آیا…… جب مَیں نے اپنے دیس میں تعلیم کی حالت دیکھی۔ ایک ایسی حکومت کہ جس کا سربراہ کچھ عرصہ قبل جب حزبِ اختلاف میں تھا، تو بہت جوش سے جلسہ عام میں کہا کرتا تھا کہ ’’قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں، تعلیم پر سرمایہ کاری سے بنتی ہیں…… اور میری حکومت، ملک میں تقریبا تعلیمی ایمرجنسی لگا کر تعلیم کو عام کرے گی۔‘‘ لیکن اب حقائق کیا ہیں……! اس کی معمولی سی جھلک اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میں چوں کہ ایک سماجی کارکن ہوں اور اپنے علاقہ میں ’’دوست کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک فلاحی تنظیم کا ذمہ دار ہوں کہ جس کے ذمے مختلف سرکاری محکمہ جات میں عوام کو درپیش مسائل بارے جاننا اور ان کے حل واسطے کوشش کرنا ہے۔ سو اسی سلسلہ میں میری یہ تنظیم علاقہ کی حد تک پولیس سٹیشن، محکمۂ مال، ہسپتالوں وغیرہ کے خود دورے کرتی ہے…… اور ظاہر ہے ایک اہم پہلو اس سلسلے میں محکمۂ تعلیم بھی ہے۔ سو ہم نے اپنے علاقہ کے چند سکولوں کا دورہ کیا اور علاقہ کے واحد بوائز کالج یعنی فیڈرل گورنمنٹ کالج روات کا بھی دورہ کیا۔ کیوں کہ ہماری تنظیم کے اہم رکن محترم ملک عبدالنثار صاحب کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ مذکورہ کالج میں آرٹس کے طلبہ کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ اس پر ہماری تنظیم نے جب کچھ تفتیش کی، تو معلوم ہوا کہ روات کالج کی سرکاری ’’ایفی لی ایشن‘‘ مطلب ’’تعلق‘‘ تو آرٹس سے ہے…… لیکن عملاً آرٹس کے طلبہ کو داخلہ نہیں دیا جا رہا…… بلکہ سائنس میں بھی کیمسٹری اور بیالوجی بالکل نہیں۔ بس سی ای ایس مطلب ریاضی فزکس اور کمپوٹر کے مضامین واسطے ہی فقط داخلہ دیا جاتا ہے۔ سو اسی وجہ سے ہماری تنظیم نے کالج کا دورہ کیا اور یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کالج انتظامیہ جو آرٹس یا پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ میں طلبہ نہیں لے رہی، تو اس کی وجہ متعلقہ شعبہ میں اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ شعبہ جات میں بھی اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ کالج انتظامیہ خصوصاً پرنسپل اور وائس پرنسپل صاحب اس کو بہت مشکل سے مینج کر رہے ہیں…… یعنی کچھ مضامین میں باقاعدہ کوئی پروفیسر یا لیکچرار سرے سے ہی نہیں…… لیکن وہ موجود اساتذہ کو ہی ’’اکاموڈیٹ‘‘ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کالج میں موجود شعبہ جات کی کارگردگی بھی براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔
ہماری ٹیم نے مزید تحقیق کی، تو یہ حیرت ناک اور ہولناک انکشاف ہوا کہ یہ صرف گورنمنٹ کالج روات کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک میں ایسا ہی ہے۔ مثلاً مَیں نے خود مزید کچھ تعلیمی اداروں کا دورہ کیا، جیسے گورنمنٹ ہائی سکول گوہڑہ راجگان راولپنڈی…… اسی جگہ ایک گرلز پرائمری سکول شوکت شاہ شہید گورنمنٹ ہائی سکول ہرکہ وغیرہ۔ آپ یقین کریں ہر جگہ بنیادی مسئلہ یہی ہے۔ طلبہ اور کلاسوں کی تعداد کے مقابل اساتذہ کی اوسط 75 فی صد سے بھی کم ہے۔ پھر مختلف دوستوں کی جانب سے جو ہم کو ’’فیڈ بیک‘‘ ملا، اس کے مطابق تقریباً…… بلکہ مکمل پورے پاکستان میں یہی حالت ہے۔ اس پروجیکٹ کے سروے کے دوران میں ہمارے دوست اور اہم تنظیمی عہدیدار چوہدری جاوید صاحب نے یہ دلچسپ تبصرہ کیا تھا کہ گورنمنٹ کالج روات جو کہ فیڈرل علاقہ مطلب اسلام آباد میں آتا ہے۔ اگر وہاں یہ حالت ہے، تو اور کہاں دُرست ہوسکتی ہے۔
اسلام آباد ہی کیا…… عمران خان کے گھر بہارا کہو ہو یا میانوالی نواز شریف کا شہر لاہور، بلاول بھٹو زرداری کے گھر نواب شاہ، لاڑکانہ اور اسی طرح کراچی، چارسدہ ہر جگہ یہی حالت ہے۔ فی الوقت اس کمی کو ختم کرنے کی دور دور تک امید ہی نہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اکثر کالجوں کے پرنسپل یا سکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور ہیڈ مسٹریس سب اس کمی بارے حکومت کو باقاعدہ تحریری طور پر آگاہ کرچکے ہیں…… لیکن شنوائی کیا ہونی، اس میں مزید ابتری ہی ہو رہی ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم پڑھتے تھے، تو تب عمومی تعلیم دینے والا استاد تو ایک طرف…… اگر سکول میں پی ٹی آئی یعنی فزیکل ٹرینگ دینے والا استاد یا کالج میں لائبریرین نہ ہو، تو ایک سکینڈل بن جاتا تھا، اب حالت یہ ہوگئی کہ مثلاً اسلامیات کا مضمون لازمی ہے، کلاس ہے، بچے ہیں، کتابیں ہیں…… لیکن اس کا کوئی استاد نہیں۔ کبھی وہ کلاس تاریخ کا استاد لے رہا ہے، کبھی سیاسیات کا، کبھی اُردو کا، کبھی انگریزی کا۔ اس طرح اردو ادب کوئی انگریزی کا استاد پڑھا رہا ہے اور اور کہیں جغرافیہ، طبیعات کا استاد پڑھا رہا ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف مختلف تعلیمی اداروں کا معیار اور نتائج کے حوالے سے کارکردگی خراب نظر آتی ہے بلکہ عمومی طور پر تعلیم کا معیار بھی گر رہا ہے۔
حالت یہ ہے کہ آج میٹرک پاس بچہ اُردو میں ایک درخواست ٹھیک نہیں لکھ سکتا۔ پوسٹ گریجویٹ بچہ یہ بھی نہیں جانتا کہ بیالوجی اور کیمیا میں فرق کیا ہے؟ مَیں حیران رہ گیا جب مَیں نے خود دیکھا کہ ایک بی اے کا طالب علم ’’آسٹریلیا‘‘ انگریزی میں غلط ہجوں سے لکھ رہا ہے۔
اب اس کا حل کیا ہے؟ یہ بات ہم سب کے لیے قابلِ غور ہے۔ بحیثیتِ قوم اس حکومت کو متوجہ کرنا اور شکایت کرنا، تو بہرحال ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ کیوں کہ عمران خان صاحب نے جہاں اور بہت سے اسباب تبدیلی کے بتائے تھے، وہاں سب سے زیادہ ڈھول تعلیم کے مسئلہ پر پیٹا تھا۔
خاں صاحب جلسۂ عام میں تواتر سے فرمایا کرتے تھے کہ قوم تعلیم کے بغیر ترقی کر ہی نہیں سکتی۔ اس ملک میں خرابیوں کی اصل جڑ تعلیمی تنزلی ہے۔ خاں صاحب یہ الزام بھی ماضی کی حکومتوں پر لگاتے تھے کہ انہوں نے جان بوجھ کر تعلیم پر توجہ نہ دی۔ وہ عوام کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ عوام ان کی کارگردگی پر سوالات نہ اٹھائیں۔ ہم آکر تعلیمی ایمرجنسی لگائیں گے۔ ہم بجٹ کا زیادہ حصہ تعلیم پر خرچ کریں گے……! لیکن خاں صاحب آپ یقین کریں کہ گذشتہ تین سالوں میں تعلیم کا نظام بہت تیزی سے بہت زیادہ پیچھے چلا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کھیل کود کے میدان ہیں، نہ بزمِ ادب کے منتظمین، نہ لائبریریاں، نہ فرنیچر اور سب سے بڑھ کر اساتذہ کی شدید کمی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ اس کو پلک جھپکتے درست کر دیں لیکن جناب وزیرِ اعظم! اس پر کہیں سے آغاز تو ہو۔ ہماری اطلاع ہے کہ آپ کی حکومت نے اس پر کبھی باقاعدہ سروے ہی نہ کیا…… بلکہ ان پرنسپل اور ہیڈ ماسٹروں کہ جنہوں نے باقاعدہ تحریری طور پر محکمہ کو یہ بتایا ہے کہ ان کے کالج یا سکول میں اتنے استاد کم ہیں…… آپ کی حکومت نے وہاں جا کر بھی تحقیق نہیں کی۔ ہاں، محکمۂ تعلیم کے ایک افسر یہ ضرور کہتے ہیں کہ تحقیق وہاں ہوتی ہے جہاں شک ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سب درخواستیں درست ہیں…… لیکن ہم مجبور ہیں کیا کر سکتے ہیں! سو ہم حکومت سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے منشور اور وعدے کے عین مطابق اس پہلو پر فوراً غور کرے اور جتنی جلد ممکن ہو یہ مسئلہ حل کرے۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف ہماری نوجوان نسل تعلیم سے محروم ہے، بلکہ جو بچے بچیاں رسمی تعلیم واسطے جا رہی ہیں، وہ بھی تعلیم کے حصول سے عملاً دور ہیں۔ آپ براہِ مہربانی اس طرف توجہ دیں، ورنہ ہم تو اب سہیل اصغر کی زبان میں آپ کو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’صدقے تھیواں سائیں تسی تعلیم پھیلانڑ آئے سو یا مکاڑ آئے سو!‘‘ مطلب صدقے جاؤں آپ تعلیم کو عام کرنے آئے تھے یا ختم کرنے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔