انھوں نے پھر امریکہ کے مفادات کی بات چھیڑ دی، اب کی بار تو مجھ سے رہا نہ گیااور خوب جلی کٹی سنائی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ہر بار باہر ہی کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بیرونی دنیا میں یوں مگن تھا کہ گویا اُن کا اپنا کوئی اندرونی اور باطنی وجودہی نہ ہو۔ یہ ’’بیرونیت‘‘ تاریخی اعتبار سے شائد دوسری اقوام کا بھی مسئلہ رہا ہو، لیکن سائنس وشعور کی افزودگی کے طفیل ان میں سے زیادہ تر اس بھنور سے نکل گئی ہیں۔ وہ جب ہر بار یہ کہتا تھا کہ ہم امریکہ کے مفادات کی جنگ لڑ رہے تھے، اور اب تو عمران خان نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ اقتدار میں آ کر امریکہ کے مفادات کی جنگ کو ختم کر دوں گا، تو میں نے اس سیاسی مغالطے کو دور کرنے کے لیے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
میں نے کہا: ’’بھائی، ہم ایک خاص قسم کی ’’بیرونیت‘‘یا ’’خارجیت‘‘ کا شکار ہیں اور یہی بیرونیت ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ جب ہندوستان کی اندرونی صورتحال نہایت بدتر ہوگئی، تو شاہ ولی اللہ نے بیرونی طاقت کو دلی پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ انھوں نے احمد شاہ ابدالی سے درخواست کی کہ خدارا، ہمیں مرہٹوں سے بچائیں، لیکن نہایت احتیاط سے حملہ کیا جائے، تاکہ دلی کے اندر کوئی مسلمان قتل نہ ہو جائے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ انھوں نے دلی پر دھاوا بول دیا، تو کیا ہندو، کیا مسلمان، سب ان کی تیغ کے نیچے آگئے۔
تاریخ کی اس رسّی کو پکڑ کر ذرا نیچے آجائیں، تو ہمیں تحریکِ خلافت ملتی ہے۔ ہندوستان کے اندر جو شور و غوغا مچا ہوا تھا، اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم نے ترکی، کی خلافت کو بچانے میں زیادہ دلچسپی لی۔ تحریکِ خلافت کے ضمنی فوائد خواہ جتنے بھی ہوں، نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے اندرونی حالات کو نظر انداز کر دیا اور اسی روایتی بیرونیت کی رو میں بہہ گئے۔

افغانستان میں جنگ ہم نے امریکہ کے لیے نہیں لڑی بلکہ ایک خاص پاکستانی گروہ کے مقاصد کے لیے لڑی۔

اس نے پوچھا کہ ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ تحریکِ خلافت نہیں چلنی چاہیے تھی؟‘‘ میں نے کہا: ’’میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جو ہونا تھا، ایک صدی پہلے ہوچکا ہے۔ میں تو فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ بیرونی مسائل میں زیادہ الجھتے ہیں۔‘‘ پتا نہیں وہ دوسرا بھی کوئی سوال کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’اور ایسے میں علامہ اقبال صاحب بھی سونے پہ سہاگے کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی ہندوستان کی اندرونی صورت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
کے تصور کو خوب زور وشور سے بیان کیا۔ زمینی حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انھوں نے فلسفیانہ مردِ مومن تخلیق کیے، خودی اور عشق کے مجرد اور مبہم تصور کو اسی مہارت و شعریت سے ابھارا کہ ہم آج تک ان کے افسوں سے اپنے آپ کو آزاد نہ کرا سکے، اور افسوس یہ ہے کہ ہم میں سے ابھی تک کوئی جیالا اور مردِ مومن بھی نہ نکلا۔ وہ بھی پان اسلام ازم کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ آپ کا کوئی قصور نہیں ہے، قصوروار ہمارا ماضی ہے کہ جس نے ہمیشہ بیرونیت کے خواب دیکھے ہیں۔ اب ہم کیا کریں، ہمیں تو یہ خیالات ان سے ملے ہیں۔‘‘
میں نے ان سے مزید کہا: ’’بھلا کوئی اتنا بھی بے وقوف ہو سکتا ہے کہ وہ بغیر کسی فائدے کے دوسروں کے لیے جنگ لڑے؟ افغان جنگ ہماری اسی بیرونیت کی عکاس ہے۔ ہم اندر کی طرف نہیں دیکھتے، باہر سے ہمارا زیادہ سروکار ہوتا ہے۔ افغانستان میں جنگ ہم نے امریکہ کے لیے نہیں لڑی بلکہ ایک خاص پاکستانی گروہ کے مقاصد کے لیے لڑی ہے۔ ہاں، یہ ہے کہ اس جنگ میں ان کا بھی فائدہ تھا۔ باقی تو اس میں ہمارے سپہ سالاروں ہی کے وارے نیارے تھے۔ جنرل ضیاءالحق کو چھے سو ملین ڈالر ملے تھے، یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا، اور آپ کو یہ بھی فہم ہوگی کہ اگر انھیں incentives نہ ملتے، تو شاید وہ اس جنگ میں پاکستانی بدنصیب عوام کو نہ جھونکتے۔‘‘
اس نے کہا: ’’دوسری پارٹیوں نے تو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیاتھا۔‘‘
میں نے کہا: ’’بھائی خفا نہ ہوں۔ اب یہ بھی میں آپ کو بتا دوں، آپ کو بھی تو اللہ تعالی نے دماغ دیا ہے۔ اس سے آپ سوچنے کا کام لے سکتے ہیں۔‘‘
میری یہ بات سن کر وہ کچھ پژمردہ سے ہوگئے۔
ایک لمحہ تحمل کے بعد میں نے ان سے پوچھا: ’’اب آپ بتائیں کہ ہم اس بیرونیت سے کب چھٹکارا پائیں گے اور اب آپ یہ بھی بتائیں کہ کیا ہم امریکہ کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں یا "اپنے” مفادات کی جنگ؟‘‘ لیکن شاید وہ روٹھا بیٹھا تھا، اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے عرض کیا: ’ٹھیک ہے، آپ کو خفگی ہوتی ہے، تو پھر میں آپ کے سامنے ایسی ’’تلخ‘‘ باتیں نہیں کہوں گا لیکن اس ’’خارجیت‘‘کے نشے سے اپنے آپ کو آزاد کرو، کبھی اپنے ملک میں ڈوب کے بھی سراغِ زندگی پا لیا کرو۔‘‘

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔