بادشاہ سلامت وفات پاچکے تھے۔ مرحوم بادشاہ کو یاد کرکے ہر آنکھ اشک بار تھی، مگر احتیاط کی جا رہی تھی کہ بادشاہ کے مرنے کی خبر سلطنت میں نہ پھیلے۔ صرف محل کے اندر موجود لوگوں ہی کو بادشاہ کی وفات کا علم تھا۔ تدفین کا مرحلہ بہت دور تھا۔ جب تک نئے بادشاہ کا تقرر نہ ہوجاتا، تب تک تدفین کا عمل شروع نہیں ہوسکتا تھا…… اس لیے سب کو صبح ہونے کا انتظار تھا۔
بادشاہ کا تقرر رعایا کے لیے کوئی اہم مسئلہ نہیں تھا۔ اس ملک میں موروثی حکم رانی کا رواج نہ تھا۔ انھوں نے بادشاہ کے چناو کے لیے بہت سادہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ جب بادشاہ فوت ہو جاتا، تو اس کی میّت محل کے ایک کمرے میں رکھ دی جاتی تھی اور ہر ممکن احتیاط برتی جاتی تھی کہ وفات کی خبر محل سے باہر نہ نکلے۔ رات کے وقت شہر پناہ کے دروازے بند کرنے اور علی الصباح کھولنے کا رواج تھا۔ بادشاہ کی وفات کے بعد جب صبح شہر کے دروازے کھولے جاتے، تو جو شخص شہر میں سب سے پہلے داخل ہوتا، اسے متفقہ طور پر بادشاہ چن لیا جاتا تھا۔ اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ اِس مرتبہ جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک ملنگ تھا۔ رواج کے مطابق اس ملنگ کو محل میں لے جایا گیا اور نہلا دھلا کر تخت پر بٹھا دیا گیا۔ نئے بادشاہ سلامت نے جو پہلا فرمان جاری کیا وہ تھا: ’’حلوا پکاؤ……!‘‘
فوری طور پر حلوا تیار کیا گیا اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ اب ایسا تھا کہ صبح، دوپہر، شام حلوے کا دَور چلنے لگا۔ بادشاہ کے وزرا اور مشیران جب بھی کسی کام کے بارے میں پوچھتے تو حکم ہوتا: ’’حلوا پکاؤ……!‘‘
امورِ سلطنت چلانے کا تجربہ ہوتا، تو بادشاہ اس طرف توجہ دیتا۔ اسے دن رات حلوا کھانے کی پڑی ہوئی تھی۔ سلطنت تباہ اور رعایا تباہ حال ہوتی گئی، مگر بادشاہ سلامت ہر مسئلے کا ایک ہی حل بتاتے:’’حلوا پکاؤ……!‘‘
ملحقہ سلطنت کے بادشاہ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا، تو اس نے لشکر کشی کر دی۔ سپہ سالار ’’ملنگ بادشاہ‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دشمن کی چڑھائی کی خبر دے کر احکامات طلب کیے۔ حکم ہوا: ’’حلوا پکاؤ……!‘‘
حلوے کی دیگیں چڑھا دی گئیں۔ دو دن بعد سپہ سالار دوبارہ بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اطلاع دی کہ دشمن افواج نے ہماری آدھی سلطنت پر قبضہ کرلیا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا: ’’حلوا پکاؤ……!‘‘
حکم کی تعمیل ہوئی اور حلوا تیار ہونے لگا۔ مزید دو دن گزرے، تو ایک مرتبہ پھر سپہ سالار حاضر ہوا کہ دشمن فوج نے شہر پناہ کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اب کیا کرنا ہے؟ حکم ہوا: ’’حلوا پکاؤ……!‘‘
حلوا بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کیا گیا اور وہ رغبت سے کھانے لگا۔ ابھی اس نے حلوا ختم ہی کیا تھا کہ سپہ سالار دوڑتا ہوا آیا اور اس نے بادشاہ سلامت کو ہانپتے ہوئے بتایا کہ دشمن فوج دروازے توڑ کر شہر میں داخل ہو چکی ہے۔ ملنگ بادشاہ نے اطمینان کے ساتھ حلوے کی پلیٹ ایک طرف رکھی، منھ صاف کیا، اپنا ملنگوں والوں چولا منگوا کر پہنا اور یہ کہتے ہوئے ایک طرف کو چل دیا: ’’ہم تو حلوا کھانے آئے تھے، وہ کھا لیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کا ملک جانے!‘‘
بظاہر تو یہ ایک کہانی ہے، مگر غور کریں، تو یہ ہماری اپنی ہی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں آج تک کوئی قابل حکم ران مل ہی نہیں سکا۔ ہمیں صرف حلوا کھانے والے ہی ملے ہیں، جنھوں نے اس ملک اور اس کے خزانے کو حلوا سمجھ کر کھایا۔ نہ کسی نے رعایا کا سوچا اور نہ ہی ملک کا۔ ہر ایک نے اپنا پیٹ اور تجوریاں بھریں۔ رعایا نے جس کو بھی مسیحا سمجھ کر بادشاہ بنایا، وہ ’’ملنگ بادشاہ‘‘ ہی ثابت ہوا۔ ان ملنگ بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار نے ہمارا ایک بازو مشرقی پاکستان کٹوا دیا، مگر ہمارے ملنگ بادشاہوں کو حلوا کھانے سے فرصت نہ ملی۔ یہ ضرور ہوا کہ حلوے کے شوقین ملنگوں کی تعداد بڑھتی گئی اور حلوے کی چھینا جھپٹی میں رعایا پر سے سب کی توجہ ہٹ گئی۔ ملک برباد کر دیا ہے ان حلوا خوروں نے۔ ان کا حلوا پورا کرتے کرتے خزانہ خالی ہو گیا، ٹیکسوں کے نام پر عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا، مگر ان کے پیٹ عمروعیار کی زنبیل بنے ہوئے ہیں۔ اپنے حلوے کی خاطر عوام کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر ڈالر کھرے کیے جانے لگے مگر ان ڈالروں میں ’’شودر عوام‘‘ کے لیے اونٹ کے منھ میں زیرہ جتناحصہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ڈالر صرف ’’برہمن‘‘ طبقے کے حلوے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہاں اس قرض کی ادائی شودر طبقہ ہی اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ٹیکسوں کی صورت میں کرتا ہے، لیکن یہ قرض ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
دور نہ جائیے، عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی کابینہ 12 وزرا تک محدود رہے گی، مگر جب انھیں اقتدار ملا، تو کابینہ کے ارکان کی تعداد 60 سے بھی تجاوز کرگئی۔ موجودہ حکومت کو بھلا یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ یہ منفی ریکارڈ عمران خان کے پاس چلا جائے، چناں چہ انھوں نے اپنی 78 رکنی کابینہ میں مزید سات معاونینِ خصوصی کا اضافہ کرکے کابینہ کے ارکان کی تعداد 85 کرکے ایسا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا ہے جسے آیندہ شاید کبھی نہ توڑا جاسکے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق آدھی کابینہ تنخواہ اور سرکاری مراعات نہیں لیتی، مگر ان کو قلم دان سونپے گئے ہیں، تو دفاتر بھی یقینا الاٹ کیے گئے ہیں۔ عملہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ گاڑیاں بھی مخصوص کی گئی ہوں گی۔ دفاتر میں اخراجات بھی ہوتے ہوں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کابینہ میں 7 ارکان کا اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب آئی ایم ایف سے قرض کی بھیک کی ڈیل آخری مراحل میں تھی اور عوام کو مہنگائی کی چکی میں باریک پیسنے کے ’’اصولی فیصلے‘‘ کی وزیرِ اعظم نے منظوری دے دی تھی۔
امریکہ اس وقت سوپر پاؤر ہے۔ اس کے وزرا کی کل تعداد 12 ہے۔ 13واں نائب صدر اور 14واں صدر ہے۔ شاید وہاں کسی کو حلوا کھانے کی اجازت نہیں۔
خدارا، اس ملک اور اس کے عوام پر اب رحم کیا جائے۔ مراعات یافتہ طبقے سے مراعات واپس لینے سے پہلے عوام پر کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے اندر پکتا ہوا لاوا پھٹ پڑے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اجتماعی خودکشیاں کرکے ایسی کٹھن زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگیں۔
خدارا، اپنے حلوے کی خاطر پاکستان کو جہنم نہ بنائیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔