میں نے جب بھی ضیاء صاحب کو سنا انہوں نے پشتون کلچر (کلتور) کی بات کی اور اس کو اپنی روایت کہا۔ آج اس ’’کلتور‘‘ کا نیا انداز دیکھا۔ آپ نے ’’تورپیکئی صاحبہ‘‘ کو تو میڈیا کے سامنے لاکھڑا کیا، جہاں انہوں نے لجاتے، شرماتے اور انتہائی خوبصورت روایتی انداز میں انٹرویو دیا، لیکن ایک پشتون ہونے کے ناتے میں یہ خوب محسوس کرسکتا ہوں کہ ہماری اس بہن کو زبردستی یا پھر مجبور کرکے اس پروگرام کا حصہ بنایا گیا تھا، ورنہ اس کے انداز سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی روایات سے پیار ہے، نہ کہ آپ کی ’’سلیبرٹی‘‘ سے۔ بہرحال میری گزارش ہے کہ اب اس قوم پر رحم کیجیے۔ آپ نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔ اب اس قوم کو اس کی طبعی حالت پر چھوڑیئے۔ نیز اس کو ’’مولوی‘‘ یا ’’طالبان‘‘ کا نام بھی مت دیجیے۔ ورنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ آپ بھی سارے پشتونوں کو طالبان سمجھتے ہیں۔ رہی سہی ’’ہمدردی‘‘ بھی آپ کھودیں گے!
قارئین، ابھی کل پرسوں جب پختونخوا میں گرلز سکولز میں مرد حضرات کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی، تو پر تنقید کرتے ہوئے ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے کہا: ’’ڈئیر وزیراعظم! آپ نے ہم سے جس تبدیلی اور نئے پاکستان کا وعدہ کیا تھا کیا یہ وہی تبدیلی ہے؟ اداروں کو آپ طالبانائزیشن کی نذر کررہے ہیں۔ لڑکیوں کے سکولز میں مرد ایم پی اے اور منسٹرز وغیرہ کو بطور مہمان مدعو نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ضیاء صاحب! آپ سے ایک سوال ہے۔ پشتون معاشرے میں جب شادی بیاہ کی رسوم ہوتی ہیں، تو مرد حضرات کہاں ہوتے ہیں؟ کیا وہ خواتین کے درمیان میں گھس کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کسی خاتون کو بلانا بھی ہو، تو بچوں کے ذریعے پیغام دیا جاتا ہے، خود نہیں جایا جاتا۔ لڑکی کے معاملے میں پختون قوم کتنی حساس ہے مجھے آپ کے سامنے یہ بتانے کی کیا ضروت؟ آپ تو خود اس خاک کے پروردہ ہیں۔ اسی دھویں کی کالی دیواروں اور مٹی گارے کے باس میں پلے بڑھے ہیں۔ اسی ’’کلتور‘‘ کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ ’’پشتون ولی‘‘ کو مانتے بھی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر پشتون لباس میں ہی آپ کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر یہ ’’تبدیلی‘‘ آپ میں کیوں؟
پاکستان کی اساس اسلامی نظریات پر ہے، لیکن یہاں کسی قوم کے اپنی مراسم اور طور طریقوں پر کبھی کسی قسم کی پابندی نہیں لگی۔ یہاں اسلام تو شاید اپنی روح کے مطابق پوری طرح پایا نہیں جاتا، لیکن قومی تشخص کی کڑیاں ہر گھر میں مضبوط ہیں۔کبھی موقع ملا، تو میں اسلام اور طالبان کا فرق بھی واضح کردوں گا۔ نیز یہ بھی کہ طالبانائزیشن کے نام کے ساتھ ایک اور نام بھی جڑا ہوا ہے، جس نام کو لیتے ہوئے ضیاء صاحب اور اس طرح کے دیگر حضرات کے پَر جلتے ہیں اور زبان پر تالے پڑجاتے ہیں۔
پختون قوم نے اگرچہ ایک طرف غیرت کے نام پر کچھ زیادتیاں بھی کی ہیں، لیکن مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے، تو ان کا انصاف، کلچر اور فراخ دلی اس قابل ہے کہ دنیا میں ہر شخص اسے اپنائے۔ خواتین کے حوالے سے پختون قوم کی حساسیت اپنی تاریخ کا ایک انوکھا باب ہے جس پر لکھنے کو دل کرتا ہے۔ اب بھی پختون قوم اپنی خواتین کو موتی کی طرح گھر کی چار دیواری میں ہی حفاظت سے رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ آپ اسے موتی کو ’’قید‘‘ میں رکھنے سے تعبیر کریں گے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً لکھنا پڑتا ہے کہ ’’تورپیکئی‘‘ جیسی خوبصورت اور باعزت خاتون کو اگر آپ موتی سمجھ کر گوروں اور دنیا کی نظر سے بچاکر صرف اپنے لیے رکھتے، تو کون سی قیامت آجاتی؟ اس کی مرضی اور من کی آواز بھی تو یہی ہے نا کہ مجھے اپنی روایت، اڑوس پڑوس، رشتے ناتے، گلے شکوے اور چیل چھبیلا، رنگ رنگیلا ماحول یاد آتا ہے۔ تورپیکئی صاحبہ کا یہ انٹرویو آج سے تین سال قبل ’’ویمن اِن دی ورلڈ‘‘ پروگرام میں نشر ہوچکا ہے۔ سو اس بہن کو تو آپ نے محروم کردیا، لیکن اب پختون قوم کی بیٹیوں کے لیے آپ کی یہ فریاد بذاتِ خود قابلِ رحم ہے۔ سو آگے بڑھیے اور معافی مانگیے کہ معاف کرنے میں بھی پختونوں کا سینہ بڑا فراخ ہے۔
بس دلِ شکستہ کے ساتھ آخری عرض یہ ہے کہ دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے۔ چند گھڑیوں کی چکاچوند کی خاطر اپنی خودداری کو یوں دیس نکالا دینا خود کو تاریک راہوں کے حوالے کرنا ہے۔ بڑا افسوس ہوتا ہے جب گھر کا بھیدی لنکا ڈھاتا ہے، یا پھر فارسی کے شعر کے اس مصرعہ کا مصداق بنتا ہے کہ
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
یعنی ’’جب کفر کعبہ کی طرف سے آئے، تو اسلام کا جائے امان کہاں رہ گیا؟‘‘

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔