جب مذہب کی ایک ہی شکل قائم رہے۔ اس کے عقائد میں سختی آتی جائے اور تبدیل ہوتے ہوئے مسائل سے دور ہوتا چلا جائے، تو اس صورت میں دو قسم کے ردِ عمل سامنے آتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ مذہب سے انکار کرکے کوئی اور متبادل نظریہ اس کی جگہ لیتا ہے۔
دوسرا، مذہب کے اندر نئے فرقے پیدا ہوتے ہیں جو مذہب کی نئی تاویلات کے ذریعے اپنے مقاصد اور ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی کے آتے آتے ویدک عقائد میں سختی آجاتی ہے۔ برہمنوں کا اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے۔ پیدائش، شادی بیاہ اور موت تک اس قدر رسومات ہوجاتی ہیں اور ان کی ادائیگی میں اس قدر اخراجات بڑھ جاتے ہیں کہ ایک عام آدمی کے لیے ان کو پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس صدی میں برہمنوں کی اجارہ داری کو چیلنج کیا گیا اور دو نئے مذہبی فرقے وجود میں آئے، جنہوں نے بعد میں علیحدہ مذہب کی شکل اختیار کرلی۔ ان میں ایک جین مت تھا اور دوسرا بدھ مت۔
جین مت (Jainism) کے بانی ’’مہا ویر‘‘ تھے جس کا مطلب ہے ’’عظیم ہیرو۔‘‘ مہاویر کا تعلق کشتریہ خاندان سے تھا اور یہ بھی اپنی آوارہ زندگی چھوڑ کر جنگلوں اور ویرانوں میں نکل گئے اور مراقبوں اور ریاضتوں اور تجربات اور مشاہدات کے بعد انہوں نے اپنے مذہب کے عقائد کی تشکیل کی۔
جین مت کے مذہب کو ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ روح صرف انسان ہی میں نہیں ہوتی بلکہ یہ جانوروں اور درختوں اور پتھروں میں بھی ہوتی ہے۔ ا س لیے انہوں نے جانوروں کی قربانیاں بند کردیں اور کھانے میں گوشت کے بجائے سبزی خور ہوگئے۔ یہ عدمِ تشدد یا ’’اہنسا‘‘ کے پیروکار بن گئے کہ کسی ذی روح کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ یہ اپنے منھ کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں، تاکہ کوئی کیڑا مکوڑا منھ میں یا ناک میں نہ چلا جائے۔ کھانا دن کی روشنی میں رات سے پہلے کھا لیتے ہیں اور پاؤں ننگے رکھتے ہیں، تاکہ ان کے پاؤں تلے کوئی کچلا نہ جائے۔
جین مت میں سختی کی وجہ سے ان کے ماننے والے بھی کم ہیں۔ مثلاً کسان، جین مت کی تعلیمات پر عمل نہیں کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ کھیتی باڑی کرتے وقت کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کو مارنا پڑتا ہے، تاکہ فصلوں کو نقصان نہ ہو اور پرندوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح دوسرے پیشہ ور لوگ بھی جین مت کے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اس کے پیروکار تاجر طبقے کے لوگ ہیں۔ لہٰذا یہ جین مت کے ماننے والے تجارت میں انتہائی ایمان دار اور دیانت دار ہیں۔ اس وقت ان کے ماننے والوں کی زیادہ تعداد جنوبی ہندوستان میں ہے، جہاں ان کے مندر بھی ہیں لیکن ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی ان کی آبادیاں ہیں۔ تقسیم (ہندوستان) سے پہلے لاہور میں جینی لوگ بھی تھے اور ان کا جین مندر بھی۔
جین مت کا رویہ دنیا کے معاملات کے بارے میں یہ ہے کہ یہ دکھ اور تکلیفوں کی کی جگہ ہے یعنی یہ دنیا اس قابل نہیں کہ اس میں خوشی اور مسرت کے ساتھ زندگی گزاری جاسکے۔
جین مذہب کا ہندو سماج پر بہت گہرا اثر ہوا۔ گوشت کی جگہ سبزی کھانے کا رواج بھی اس کی تعلیمات کا اثر ہے۔ آہنسا یا عدمِ تشدد کے اصول پر عمل کرنا بھی جین مت کی وجہ سے ہے۔ اس لیے یہ ایک علیحدہ سے مذہب بھی رہا اور اس نے ہندوستان کے معاشرے کو تبدیل بھی کیا۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 86 اور 87 سے انتخاب)