جہالت گناہ بھی ہے اور گم راہی بھی۔ قوموں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی جہالت ہے، مگر آپ کسی کو جاہل کَہ کر دیکھیں، آپ کے گلے پڑجائے گا اور اپنی جہالت کو تسلیم نہیں کرے گا۔ گویا اس بات کا احساس سبھی کو ہے کہ جہالت بری چیز ہے۔ دراصل ہمارے ساتھ جڑا ہوا شیطان ہمیں اس زعم میں مبتلا رکھتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عقل مند ہم ہیں اور سب سے زیادہ سچے بھی ہمیں ہیں۔ ہر گم راہ خود کو صراطِ مستقیم پر سمجھتا ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ناخواندگی کو جہالت سمجھ لیا گیا ہے۔ جہالت ناخواندگی نہیں، گم راہی ہے۔ اصل راہ سے بھٹک کر غلط راہ پر چل نکلنا اور پھر خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھنا ہی اصل جہالت ہے۔ ابوجہل کو اس لیے اس دور کا سب سے بڑا جاہل نہیں کہا گیا کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ اپنے دور کے لحاظ سے وہ ایک پڑھا لکھا شخص تھا، مگر صراطِ مستقیم سے بھٹکا ہوا تھا، اس لیے ابوجہل کہلایا۔
ہمارے یہاں پڑھے لکھے جہلا کی کمی نہیں، جو چند جماعتیں پڑھ کر اپنے آپ کو عالم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اُن کی علمیت کا تمام تر دار و مدار ’’یوٹیوب‘‘، ’’فیس بُک‘‘، ’’واٹس اپ‘‘ اور ’’ایکس‘‘ کے ذریعے پھیلایا گیا جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ وہ اسی کی بنیاد پر علما کو للکارتے ہیں۔ سکالروں کو چیلنج کرتے ہیں۔ اپنے شعبے کے ماہرین کو جاہل گردانتے ہوئے خود کو ہر فنِ مولا، مذہبی سکالر اور دین کا ٹھیکے دار تک سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ حقیقت میں وہ گلے گلے جہالت اور شرک کے گڑھے میں اُترے ہوتے ہیں۔ یہ توہم پرست بھی ہوتے ہیں اور مذہب سے کوسوں دور بھی۔ نماز، روزہ اور دیگر عبادات سے اُنھیں دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی پوسٹ کو 20 مرتبہ شیئر کرکے خود کو جنت کا حق دار سمجھنے لگتے ہیں، یا پھر ان رنگ باز فراڈیوں کی پیروی اختیار کرتے ہیں، جو ان سے چڑھاوے لے کر جنت کی بشارت دیتے ہیں، یا پھر ان کے پیر وہ لوگ بن جاتے ہیں، جو انھیں سنہرے خواب دکھاتے ہیں۔ خود کو حق اور دوسروں کو باطل گردانتے ہیں۔ جو اپنے پیروکاروں سے قربانیاں مانگتے ہیں، مگر خود لگژری لائف سٹائل چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔
کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا لڑکا بھاگتا ہوا ’’شیوانا‘‘ (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکر) کے پاس آیا اور کہنے لگا، میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے۔ آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں۔
شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ہیں اور چھری ہاتھ میں پکڑے آنکھ بند کیے کچھ پڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بُت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا، تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے، مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوش نودی کے لیے اُس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔
شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے؟ عورت نے جواب دیا، کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ مَیں معبد کے بُت کی خوش نودی کے لیے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں، تا کہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔
شیوانا نے مسکرا کر کہا، مگر یہ بچی تمھاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے، اِسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارداہ کیا ہے۔تمھاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے، وہ تو پتھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچی کی جان لینے پر تُل گئی ہو۔ یہ بُت احمق نہیں۔ وہ تمھاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے۔ تم نے اگر کاہن کی بہ جائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی، تو یہ نہ ہو کہ بُت تم سے مزید خفا ہوجائے اور تمھاری زندگی کو جہنم بنا دے۔
عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچی کے ہاتھ پاؤں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی، مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا۔
یہی حال ہمارے آج کل کے کاہنوں کا ہے۔ معبد میں قربانی دینے کا رواج نہیں رہا، تو اپنے پیروکاروں کی آزمایش کے لیے انھیں جیلیں بھرنے، سڑکیں بلاک کرنے اور جلاو گھیراو کا حکم دے کر اپنی طاقت کا لوہا منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی ایک شخصیت مذکور نہیں۔ سبھی کاہن ایسے ہیں۔ کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ اپنے اپنے دائرے کے اندر ہر ایک نے جاہل پیروکاروں کے سہارے اپنی سلطنت قائم کرلی ہے، جس کا حکم ران وہ قربانی لینے والا قاتل دیوتا ہے، جو کاہن کے روپ میں خود ہی ’’جانوں کی بلی‘‘ مانگتا ہے اور اپنے اندھے عقیدت مندوں کو ’’مُکتی‘‘ کی بشارت دیتا ہے۔
پادری نے اعلان کیا کہ جس نے جنت خریدنی ہے، وہ ہم سے رابطہ کرسکتا ہے۔ جاہل لوگ جنت حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنا شروع ہو گئے۔ ایسے میں ایک عقل مند شخص نے جہالت کا شکار ان لوگوں کو اس احمقانہ کام سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن سب بے سود۔آخر ایک دن اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ گرجا گھر گیا اور جنت بیچنے کے انچارج پادری سے کہا: ’’مجھے جہنم خریدنا ہے۔ کیا قیمت ہے؟‘‘
پادری حیران ہوا اور کہنے لگا: ’’جہنم؟‘‘
اس شخص نے کہا: ’’ہاں جہنم!‘‘
پادری خوش ہوا کہ اب جہنم بیچ کر بھی کمائی کرسکوں گا۔ لہٰذا سوچے بغیر کہا: ’’3 سکے!‘‘
اس آدمی نے جلدی جلدی رقم ادا کی اور کہا: ’’جہنم کی دستاویز دے دو!‘‘
پادری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا: ’’جہنم کی دستاویز۔‘‘
وہ شخص خوشی خوشی دستاویز اٹھا کر چرچ سے نکل آیا اور شہر کے مرکزی چوک پر کھڑا ہو کر چلایا: ’’مَیں نے جہنم خرید لیا۔ یہ اس کی دستاویز ہے۔ اَب میں کسی کو بھی اس میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ لہٰذا تمھیں اب جنت خریدنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ میں کسی کو جہنم میں نہیں جانے دوں گا۔‘‘
یہ شخص تھا’’سقراط‘‘”تھا، جس نے اپنے اس اقدام سے لوگوں کو ان کی لاعلمی کی وجہ سے کی جانے والی حماقت سے نجات دلائی۔
دنیا میں صرف ’’آگاہی‘‘ کو فضیلت حاصل ہے اور واحد گناہ ’’جہالت‘‘ ہے، جس دن ہم اپنے کاہنوں، پادریوں اور مذہب و حق کے نام پر گم راہ کرنے والے ابن الوقت پنڈتوں کو پہچان گئے، ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔