کچھ عرصہ پہلے سوات میں تبلیغی اجتماع کی منسوخی کے حوالہ سے ڈپٹی کمشنر سوات کا مؤقف لینا تھا۔ موصوف کے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا، تو کوئی جواب نہ ملا۔ چوں کہ ڈی سی سوات فیس بُک میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، اس لیے فیس بُک پر انہیں پیغام بھیجا جسے پڑھ کر نظر انداز کردیا گیا۔
اگلے دن دفتر میں صحافی دوستوں سے اس حوالہ بات چھیڑی، تو پتا چلا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب اس معاملے میں زیادہ فعال نہیں۔ وہ اکثر صحافیوں کو اپنا مؤقف دینا پسند نہیں کرتے۔
اسی طرح گذشتہ روز تحصیل دار بابوزئی کے دفتر کو سیل کرنے کے حوالے سے ایک واقف کار صحافی کو نیوز سٹوری رپورٹ کرنا تھی۔ سٹوری بیلنس کرنے کی خاطر دونوں فریقین کا مؤقف ضروری ہوتا ہے۔ چوں کہ مذکورہ خبر میں اربوں مالیت کی سرکاری زمین اور ڈپٹی کمشنر کا ذکر تھا، اس لیے جب ان سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے کوئی دو ٹوک مؤقف دینے کی بجائے دفتر آنے کا حکم دے دیا۔
قارئین! نیوز اسٹوری فائل کرنے سے لے کر اخبار کی چھپائی تک کا عمل ایک مقررہ وقت پر ہوتا ہے۔ صحافیوں کو وقت پر خبر دینی ہوتی ہے۔ اس لیے آج کل کے زمانے میں موبائل کے ذریعے بڑے سے بڑے عہدیدار اپنا مؤقف دے دیتے ہیں۔ یہ بہت عام اور سادہ پریکٹس ہے۔ اس میں کسی کی عزت پر کوئی آنچ آتی ہے نہ کسی کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ دنیا بھر میں موبائل اور وٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا یہ سلسلہ ایک طرح سے روایت بن گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں ڈپٹی کمشنر کا صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا طریقہ بہت نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ ذاتی نوعیت میں صحافی کا کسی عہدیدار سے رابطہ کرنا بالکل مختلف معاملہ ہے، لیکن جب خبر کی بات آتی ہے، تو وہاں صحافی، عوام اور اداروں میں پُل کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے عوام مفاد سے متعلق خبر میں صحافی کا عہدیداروں سے مؤقف لینا اور عہدیدار کا مؤقف دینا، دونوں اہم ذمہ داریاں ہیں جنہیں نظر انداز کرنا عوام کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
یہ سچ ہے کہ فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیائی پلیٹ فارم وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اگر ڈپٹی کمشنر اپنی کارکردگی کو عوام کے ساتھ شریک کرتے ہیں، تو یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن اخبار کا معاملہ مختلف ہے۔ فیس بُک کے برعکس، اخباری مواد ریکارڈ کا حصہ بنتا ہے۔ یہ تشہیر سے زیادہ مستند معلومات پر زور دیتا ہے۔ اس لیے میری ڈپٹی کمشنر صاحب سے گذارش ہے کہ فیس بک کے چند لائک اور کومنٹ اپنی جگہ، لیکن آپ کا عہدہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ آپ عوامی مفاد سے جڑے معاملات پر صحافیوں کو اپنا مؤقف دے دیا کریں۔ ہمیں ’’جنید خان‘‘ کے مؤقف سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، ہمارے لیے ’’ڈپٹی کمشنر‘‘ کا مؤقف اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے اپنی فیس بکی تشہیری پالیسی کو ایک طرف رکھتے ہوئے صحافی اور خبر کی اہمیت کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔