"بھئی، یہ کوئی عام آبشار تھوڑی ہے ، اس کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہاں ایک مقامی چرواہے کی گائے غلطی سے چَرتے چَرتے آبشار کے احاطے میں اوپر سے گرتے پانی کی زد میں آگئی۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگ میرا یقین نہیں کریں گے مگر نتیجتاً گائے کا سر تن سے جدا ہوگیا تھا۔”
آج سے 9 برس پہلے جب ہم جاروگو آبشار کی سیر کرنے کی غرض سے ہائیکنگ میں مصروف تھے، تو اپنے خالہ زاد بھائی کے منھ سے یہ حوالہ سنتے ہی میری ہنسی چھوٹ گئی۔ مجھے اس کی بات پر اُس وقت تک یقین نہیں آ رہا تھا جب تک میں نے آبشار خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی۔ میں نے جیسے ہی تقریباً کوئی سوا سو فٹ بلندی سے گرتے ہوئے پانی کو دیکھا، تب اس بات پر یقین سا ہونے لگا۔ اس وقت ہمارے گروپ میں ایک ماہر طبعیات بھی تھے۔ انہوں نے میرے خالہ زاد کی بات پر مہرِتصدیق ثبت کرتے ہوئے کہا کہ اتنی اونچائی سے گرنے والا پانی کسی تیز دھار تلوار سے کم نہیں ہوتا۔
جاروگو آبشار بلاشبہ پاکستان کی بلند ترین آبشاروں میں سے ایک ہے۔ آج سے محض 8 یا 9 سال پہلے باقی ماندہ دنیا تو دور، بیشتر مقامی سیاحوں کی آنکھوں سے بھی یہ جادوئی آبشار اوجھل تھی مگر جیسے ہی "ڈان نیوز” نے اس پر ایک چھوٹی سی ویڈیو رپورٹ بنائی، تو سیاح بھی اس طرف امڈ آئے۔

جادوئی جاروگو آبشار کا پانی کوئی سوا سو فٹ کی بلندی سے گرتا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

لفظ جاروگئی پشتو میں "جھاڑو” کو کہتے ہیں، اس کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے کچھ روایتیں مشہور ہیں۔ پہلی یہ کہ اول اول آبشار کے ملحقہ علاقے سے عورتیں جھاڑو بنانے کے لیے تنکے اکھٹا کرکے لایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے اس کا نام جاروگو آبشار پڑا۔ دوسری روایت وہاں کے ایک 80 سالہ بزرگ کے مطابق کچھ یوں ہے کہ "صدیوں پہلے یہاں جاروگی نامی ایک ہندو عورت رہتی تھی۔ جاروگی کی وجہ سے ہی اس آبشار کا نام بھی جاروگو پڑا۔”
دوسری روایت حقیقت کے زیادہ قریب اس لیے ہے کہ "جوگن” کو پشتو زبان میں "جوگئی” کہتے ہیں، اور شاید وقت کے ساتھ ساتھ لفظ جوگئی، جاروگئی کی شکل اختیار کر گیا ہو۔
جاروگو آبشار دیکھنے کے لیے مینگورہ شہر سے "بہا” تک تقریباً 36 سے 37 کلومیٹر کا فاصلہ باآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک روڈ کی حالت بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ بہا سے آگے جیپ ایبل ٹریک ہے جس پر صرف فور بائے فور گاڑیاں ہی آگے "چاتیکل” گاؤں تک رسائی ممکن بناتی ہیں۔ یہ صبر آزما مسافت کوئی 8 سے 10 کلومیٹر ہے۔

فور بائے فور گاڑی جس میں مقامی لوگ "بہا” کی طرف جا رہے ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحاب)

گاؤں چاتیکل سے آگے جاروگو تک دو راستے جاتے ہیں۔ پہلا راستہ ندی کے ذریعے آگے بڑھتا ہوا قریب 40 منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک مشکل ہے وہ یہ کہ چھوٹے بڑے پتھروں پر بار بار چڑھنا اور اترنا پڑتا ہے جو ایک بڑا صبر آزما مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا راستہ وہاں پر موجود پہاڑ اور اس میں گھنے جنگل کے درمیان سے نکلتا ہے۔ مذکورہ راستہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ جنگل والے راستے سے جانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے باآسانی آبشار کے اوپر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ آبشار کا احاطہ شروع ہوتے ہی چیڑ، دیار اور اخروٹ کے گھنے جنگلات دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ اس عالم میں پرندوں کی چہچہاہٹ ماحول کی سحر انگیزی میں اور بھی اضافہ کر دیتی ہے۔
جنگل والے راستے سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہی بڑے بڑے دشت شروع ہو جاتے ہیں، جسے مقامی زبان میں ’’دربونہ‘‘ کہتے ہیں۔ دربونہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ضلع سوات اور دیر کے درمیان حدِ فاصل ہے۔

جاروگو آبشار کے اوپر کے مرغزار جنہیں علاقائی طور پر "دربونہ” کہتے ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

دربونہ میں تاحدِنگاہ، کھلے سبزہ زاروں میں موسمِ گرما کے لیے خانہ بدوشوں کی جانب سے تعمیر کیے گئے چھوٹے بڑے کوٹھے دکھائی دیتے ہیں، جن کے گرد چاردیواری نہیں ہے۔ خانہ بدوش مال مویشی چراتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والا دودھ اور اُون وغیرہ ان خانہ بدوشوں کے گزر بسر کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مقامی و غیر مقامی سیاح ان سبزہ زاروں میں باآسانی رات گزار سکتے ہیں۔ اوپر ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے جس میں ٹھہرا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر اپنے ساتھ خیمے لے جائے جائیں، تو بھی سیر کا مزہ دو بالا ہوسکتا ہے۔
دربونہ میں بسے یہ خانہ بدوش انتہائی مہمان نواز ہیں۔ گاڑھے دودھ، تگڑی چائے یا پھر گاڑھی چھاچھ سے سیاحوں کی تواضع کو وہ اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر سیاح کمبل وغیرہ اپنے ساتھ لے جانا بھول گئے ہوں، تو بھی خانہ بدوش اپنی خدمات پیش کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
دربونہ سے نیچے آتے وقت لمبے لمبے پہاڑوں کے دامن میں ایک اسٹیڈیم نما جگہ شروع ہو جاتی ہے، جہاں 210 سے 215 میٹر کی بلندی سے گرتی آبشار پر پڑنے والی پہلی نظر سیاح کو دم بخود کر دیتی ہے۔ پانی جس جگہ گرتا ہے، وہاں قدرتی طور پر ایک بڑا تالاب بن گیا ہے۔ اتنی اونچائی سے گرتے پانی کی پھوار تقریباً 30 سے 35 فٹ کے فاصلے تک ہلکی بارش نما بوندیں سیاحوں کے کپڑوں کو تر کر دیتی ہے۔

جاروگو آبشار، فردوس بر روئے زمیں است (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

آبشار پر تصاویر کھینچنے والے قدرے فاصلہ پر کھڑا ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بار بار کیمرے کے لینس کو رومال یا ٹشو پیپر کی مدد سے صاف کرنا پڑتا ہے۔
بڑے آبشار کے ساتھ قریب 20 میٹر دور ایک چھوٹی آبشار بھی دکھائی دیتی ہے، مگر اس کی طرف سیاحوں کی توجہ کم ہی جاتی ہے حالانکہ دیکھا جائے, تو یہ بھی ایک اچھی خاصی بلند و بالا آبشار ہے۔

جاروگو کی چھوٹی آبشار، جو بڑی آبشار کے ساتھ ہی اوپر سے گرتی ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

جاروگو کی سیر کرنے والوں کے لیے مئی، جون، جولائی یا اگست کا مہینہ آئیڈیل ہے ۔ بہتر ہوگا کہ بہا یا اس کے آس پاس کسی گاؤں کو بیس کیمپ بنا کر رات وہاں گزاری جائے ۔ ایسا کرنے سے جاروگو سے بروقت واپسی ممکن ہوسکے گی، بصورت دیگر دربونہ میں رات گزارنا پڑے گی، جس کا اپنا ہی مزہ ہے ۔
جاروگو آبشار کی خوبصورتی کو شعری زبان دی جائے تو اسے یوں بیان کیا جائے گا کہ:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔