’’کلچر‘‘کافی متنازعہ شے ہے۔ متنازعہ اس حوالہ سے کہ بعض لوگ اسے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، اس کے تحفظ کے لیے انجمنیں تشکیل دیتے ہیں اور اس کو باقی اور برقرار کھنے کے لیے کافی دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے کلچر کی ہر قدر کو، خواہ وہ انسان دوست ہو یا انسان دشمن، دل و جاں سے زیاد ہ عزیز رکھتے ہیں۔ اگرچہ بسا اوقات کلچر کے تحفظ کا نعرہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ بھی ہوتاہے، جب کہ بعض لوگ کلچر کو جابر اور ظالم خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کلچر چوں کہ ماضی سے آیا ہوتا ہے، کلچر کے عقائد اور خیالات حال کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتے، کیوں کہ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہرنئے دن کے ظہور کے ساتھ عقل و خرد کی روشنی میں نیا انتظام ہونا چاہیے۔ وہ فرد یا قوم کبھی پوری اور مستقبل آور کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی، جب وہ اپنے آپ کو کسی ایک خاص راستے پر مقفل کردے۔ چوں کہ نئے نئے راستوں کی تلاش کے لیے تنقیدی اور تخلیقی سوچ کا ہونا ضروری ہے، اور چوں کہ ایک خاص کلچر خاص عقائد سے ہٹ کر سوچنے کا حوصلہ نہیں رکھتا، اس لیے ایک ہی کلچر سے چمٹے رہنے سے ترقی کے امکانات مسدود ہو جاتے ہیں۔
کلچر اور تہذیب کی واضح اور دو ٹوک تعریف پر تاحال ماہرین کا اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم، کلچر کسی خاص کمیونٹی کے اقدار، اخلاقی اور روحانی نظام و رسومات کو کہاجاتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی کلچر بحیثیت مجموعی برا نہیں ہوتا۔ اس میں بعض اچھے پہلوبھی ہوتے ہیں، جو گذشتہ عقل مند انسانوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں، لیکن کسی کلچر کو اپنی ذات میں اکمل و احسن سمجھنا اور اس میں کسی تغیر و تبدل اور حذف و ایجاد کے لیے گنجائش نہ چھوڑنا انسانی عقل کی اہانت ہے۔ کسی کلچر کو لازوال اور ابدی خیال کرنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ گزرے ہوئے سب انسان عقل و دانش کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔ انہوں نے جو اور جس طرح کا فکر و فلسفہ وضع کیا ہے، درست اورحتمی ہے۔ اور جدید انسان ایجاد اور اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی صفت سے عاری ہے۔ ان اوصاف سے بے بہرہ ہے۔ جدید انسان میں سوچنے یاکم سے کم اپنے اجداد کی طرح مؤثرسوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ یقینا ایک خطرناک خیال ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر تجربہ اپنی ذات میں منفرد ہوتا ہے۔ ہر تجربے کے منفرد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اکیلا تجربہ نہیں ہوتا، جو وقوع پذیر ہوتا ہے بلکہ اس کے وقوع پذیر ہونے میں دوسرے عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ اب اگر ان دوسرے عوامل میں ذراسی بھی تبدیلی واقع ہوجائے، تو اس مخصوص تجربے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ ماضی کے تجربات حال کے تجربات سے مختلف ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی حال میں ایک ہی قسم کے تجربات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اگر بیرونی عوامل میں تبدیلی لائی جائے۔ مرزا غالبؔ نے بھی شائد اس حوالے سے یہ شعر کہاہے:
لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آو نا، ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
اس لیے ماضی میں واقع ہونے والے کسی ایسے تلخ تجربے سے خوف کھانا، جو ایک بار جان لیوا ثابت ہوچکاہو اور یہ سمجھنا کہ اسی تجربے کا اب بھی یہی نتیجہ نکلے گا، خام خیالی ہے اور تجربے، تجربے کا پس و پیش منظر کو مکمل طور پر نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ تجربے سے متعلقہ دوسرے عوامل بھی مستقل نہیں ہوتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے عوامل سے کسی ایک عامل کی تبدیلی سے بھی تجربے کی حیثیت بدل جاتی ہے، اور نتیجتاً اس کا نتیجہ بھی ماضی کے تجربے کے نتیجے سے مختلف ہو جاتا ہے۔ مثلاً، ماضی میں کسی شخص کو اپنی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یا معروضی حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ایک تلخ تجربہ حاصل ہوا۔ اب آپ نے اس کے تجربے کی تعمیم کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو بھی یہ تجربہ کرے گا، ناکام ہوگا۔ یہ واقعے کی غیر عقلی تعمیم (Over generalisation) ہوگی۔ جو کہ صرف ذہنی خوف کو ہی پیدا کرے گی۔ علمِ حیاتیات کے مطابق انسان کا اعصابی نظام ایسا واقع ہوا ہے کہ خاص واقعات کی تعمیم کرکے ذہنی خوف کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔
انسانیت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے اور تنقیدی شعور رکھتی ہے۔ اس لیے یہ سوچنے سمجھنے اور تنقیدی شعور محض گذشتہ انسان کی خاصیت نہیں تھی بلکہ اس خاصیت میں آج کا انسان بھی برابر کا شریک ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوعِ انسانی آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرہم اجداد کے تجربات اور افکار پر ہی تکیہ کر لیتے، تو شاید ہم آج بھی مادی اور سائنسی ترقی کے حوالے سے وہاں ہوتے، جہاں وہ خود کھڑے تھے۔
اگر ہم سادہ لفظوں میں کلچر کو دو حصوں میں تقسیم کریں، تو اس میں دو قسم کے خیالات و عقائد پائے جاتے ہیں۔ ایک کو محدود کن (Limiting belief)، جب کہ دوسرے کو (Propelling belief) کہا جاسکتا ہے۔ محدود کن عقیدہ وہ ہوتاہے، جو ہماری ترقی، نئی سوچ اور انسانی وحدت و حریت کی راہ میں حائل ہو۔ جو عقیدہ کسی کو درست تجزیہ اور تخلیقی سوچے سے محروم رکھے، تو یہ عقیدہ انسان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، "Limiting belief” وہ ہوتا ہے، جس سے عقیدے کے پیمانے پر ہم ہر نئی بات کو ناپیں۔ محدود کن عقیدے کی دوسری مثال یہ لیجیے، فرض کیجیے کہ آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں۔ آپ میں صلاحیت بھی ہے، لیکن آپ کے ذہن میں ایک خوف ہے کہ یہ کام میں نہیں کرسکتا اور آپ کے ذہن میں یہ خیا ل پختہ ہوجائے کہ یہ میری بس کی بات نہیں اور یوں آپ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود محض اپنے عقیدے کی بنیاد پر وہ کام نہ کرسکیں، تو یہ محدود کن عقیدہ ہے۔ ظاہری بات ہے کہ عقیدہ (ہمارے ذہن کا پختہ خیال) ایک "Reference point” ہوتا ہے۔ اس کے ترازو میں آپ کسی بھی خیال کو ناپیں، جیت اسی کی ہوگی۔ اس لیے خیال یہ کیاجاتاہے کہ وہی لوگ زیادہ تنقیدی شعور سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، جو حالات و مسائل کا جائزہ معروضی انداز میں لے لیں، یعنی اپنے آپ کو بیرونی دنیا سے منہاکر دیں۔ اپنے آپ کو دنیا سے، اپنے کلچر سے اور اپنے ذہن میں پہلے سے موجودہ اور پختہ نظریات سے الگ کر دیں۔ ایسے حالات میں جب کسی مسئلے کا تجزیہ وتحلیل کیاجائے، تو زیادہ سچے اور مفید نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہو جائے کہ میں فلاں کام ہر قیمت پر سرانجام دوں گا، تویہ عقیدہ آپ کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا اوریہی آپ کا پروپلنگ بیلف ہوگا۔ مثلاً آپ سمجھتے ہیں کہ انسان کو سچی خوشی تب نصیب ہوتی ہے، جب وہ دوسروں کی بے لوث مدد و خدمت کرے یاکہ کامیابی اس شخص کو نصیب ہوتی ہے جو سخت محنت کرتا ہے۔ یہی عقیدہ آپ کو آگے کی طرف دھکیلتا ہے۔ یہی وہ مثبت عقیدہ ہے، جو زندگی کا پہیہ گھماتے رہنے کے لیے ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان دوقسم کے عقیدوں کے درمیان امتیاز کیسے ہوگا؟ یہ امتیاز آپ کو آپ کا معروضی تنقیدی شعور بتائے گا، جب آپ اپنے اعمال اور نتائج کی جانچ کریں گے کہ فُلاں نتیجہ جس خیال کے نتیجے میں واقع ہواہے، مفید ہے۔ اس لیے اس عقیدے کو رکھنا چاہیے اور فُلاں نتیجہ جس خیال کا نتیجہ ہے، بے مقصد اور ضرر رساں ہے۔ اس لیے اس خیال کو ترک کر دینا چاہیے۔
ویسے تو ہمارے کلچر کے بہت سارے پہلو ایسے ہیں، جن پر سوچنے کی ضرورت ہے لیکن سرِدست تشدد ہی کے پہلوپر سوچ لیتے ہیں۔
٭ تشددکا پس منظر:۔ انسان اپنی تخلیق کے بعد جب "Mini-ice-age” میں رہتا تھا، تو اس نہتے اور بے یار و مددگار انسان کو بیرونی دنیا میں اپنی بقا کے لیے ہر چیز سے لڑنا پڑتا تھا، جس میں سخت موسم سے لے کر جنگلی جانوروں تک کی مخلوق شامل تھی۔ چوں کہ معروضی دنیا سازگار نہیں تھی۔ اس لیے انسان کو زندہ رہنے کے لیے سخت جد و جہد کی ضرورت ہوتی تھی۔ بے تحاشا برف باری، شدید طوفانی ہوائیں، جنگلی دیوہیکل درندے …… ان سب خطرات پر قابو پانے کے لیے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے انسان کو اپنے وجود اور توانائی سے بھی بڑھ کر جد و جہد کرنی پڑتی تھی، یہ کوئی ایک سال یا عشرے کی جد و جہد نہیں تھی بلکہ صدیوں پر محیط ایک مسلسل معرکہ تھا، جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ انسان کی جینز میں خوف، جارحیت اور غصہ شامل ہوگیا۔ تب سے انسان میں منفی جذبات پروان چڑھے۔ یہی منفی جذبات مستقبل میں جا کر اور بھی مستحکم ہوئے۔ قبائلی (Clans) دور میں انسانوں نے یہی جارحانہ جذبات ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیے۔ جاگیرداری دور میں ان منفی جذبات کا عروج ہواجب چند انسانوں نے اکثر انسانوں کو غلام بنالیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آپ جن نیورانز (Neurons) کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، اُن ہی نیورنز کی پروش ہوتی ہے۔ بہ نسبت اُن نیورنزکے جو استعمال میں نہیں لائے جاتے۔ اس لیے اگر کوئی منفی رویہ، جارحانہ رویہ دیر تک اپنایا جائے، تو یہ انسان کا مزاج بن جاتاہے۔ چوں کہ انسان نے اپنی ابتدائے تخلیق ہی سے جارحانہ جذبات کو بروئے کار لایا، اس لیے جارحیت اور تشدد انسان کی جینز میں شامل ہوگئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تشدد کا رویہ یا جذبہ درحقیقت انسان نے ابتداً اپنی بقا کی جنگ جیتنے کے لیے استعمال کیا۔ ایک لمبے عرصے تک اسے استعمال کرتے کرتے یہ انسان کی فطرتِ ثانیہ بن گیا، لیکن اب چوں کہ سماج پھیل چکاہے، فطرت سے جنگ سے زیادہ سماجی روابط اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اب ہم ایک وسیع اور پیچیدہ انسانی سماج میں رہ رہے ہیں۔ انسان کی فطرت سے براہِ راست جنگ کے دور کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ہمیں ایسے رویے اپنانے ہوں گے، جن میں ہمیں سماجی تحفظ اور بقا فراہم کرنے کی توانائی موجود ہو، اس لیے اب تشدد اور جارحیت ماضی کی طرح کارگر نہیں رہی بلکہ یہ رویہ تو الٹا سوسائٹی میں توڑپھوڑ، نفرت اور عناد کا سبب بنتا ہے۔ اب جو لوگ اپنے ماضی سے زیادہ قریب ہیں اور ماضی کی طرف مڑمڑ کر دیکھتے ہیں، وہ اسی رویے کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس جو لوگ مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں، وہ رواداری، برداشت اور صبرجیسے مثبت رویوں کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہمارے کلچر میں ریاست سے لے کر فرد تک یہ تصور راسخ ہے کہ کسی فرد کی اصلاح آخرِکار تشدد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ گھر میں والدین کا بچوں کے ساتھ رویہ تشدد پر مبنی ہوتا ہے۔ بچوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں سے لے کر بڑے کاموں تک ہم انہیں تشدد سے سدھانے کی فکر میں ہوتے ہیں، اور یہ ہمارے معاشرے کا عام رویہ ہے۔ گھر کے اندرونی ماحول سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ تک ہر جگہ عدم برداشت اور جارحانہ رویے ہی ہماری پہچان بن گئے ہیں۔ بچے کی چھے سال تک پرورش اس متشددانہ فضا میں ہوجاتی ہے۔ اکثر والدین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بچوں کی کوئی منصوبہ بند تربیت نہیں کرتے۔ وہ بچوں کو معمولی غلطیوں پر مارتے پیٹتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کی تر بیت ہوجائے بلکہ اس لیے کہ ان کا اپنا جی ٹھنڈا ہو جائے۔ رہی سہی کسر اسکولوں میں پورا ہوجاتی ہے۔ بچوں کو رٹا لگوانے اور ڈسپلن پر ڈالنے کے لیے تشدد ہی اگر پہلا نہیں، تو آخری حربہ ضرور ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتاہے، جب بچے کے ذہن میں تشدد کا ایک ایسا نقشہ بیٹھ جاتا ہے کہ وہ اسے ایک قابلِ برداشت اور قابلِ قبول وسیلہ سمجھ لیتاہے اور جب یہی بچہ بڑا ہو کر ماں باپ کی حیثیت کی ذمہ داری سنبھال لیتاہے، تو وہ نہ صرف اپنی اسی قد ر کو آگے کی نسل میں منتقل کردیتاہے بلکہ حال میں بھی اپنے معاشرے میں اس رویے کو پھیلاتاہے یا پہلے سے نفوذ شدہ جارحانہ رویے کو مزیدمستحکم کرتا ہے۔ اسی طرح یہ رویہ اُفقی اور عمودی دونوں طور پر پھلتا پھولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر فرد کے دماغ کی بالائی سطح کے فوراً بعد جارحیت کی تہیں شروع ہوجاتی ہیں،یعنی ہم کسی شخص کے کسی بھی ناگوار کام پر فوراً سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ضروری ہے۔ ہم عموماً پشتومیں یہ بات کہتے ہیں کہ ـ’’ناجائزہ رانہ، نہ برداشت کیگی‘‘ یہی خیال ہمارے ذہن میں غلط طور پر راسخ ہوچکا ہے۔ آج سماجی سائنس کا دور ہے۔ اس طرح پھیلے ہوئے سماج میں ہم برداشت ہی کے بل بوتے پر مفید اور اچھے روابط قائم کرسکتے ہیں۔ تشدد اور جارحیت کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ہمارا معاشرہ تشدد والا معاشرہ ہے، جو تشدد انفرادی سطح پر گھر سے اور اجتماعی طور پر ریاستی اداروں سے شروع ہوتا ہے اور وائرس کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچاہے کہ کسی ناگوار کام یا جرم کی اصلاح کا تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری گھریلو زندگی بدل جائے، ہمارے معاشرے میں تبدیلی آجائے، تو ہمیں بچوں کی درست تربیت کرنا ہوگی۔ یہ تب ممکن ہوگا، جب پہلے ہم اپنے منفی رویوں کو مثبت رویوں میں بدل ڈالیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔