ملک میں جوں جوں نئے الیکشن کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے، سیاست کے تمام پرانے کھلاڑی اپنی اربوں روپے کی کرپشن بچانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ چکے ہیں۔ ان میں حکمران جماعت ن لیگ اور پی پی پی سرفہرست ہیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنی ذیلی اتحادی جماعتوں کو بھی متحرک کر رکھا ہے اور نئے نئے الیکشن پلان پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ تمام مذہبی جماعتوں کو اکٹھا کر کے ایم ایم اے کی صورت میں اک نئے اتحاد سے کے پی کے میں عمران خان کا راستہ بھرپور طریقے سے روکنے کی کوشش کریں۔ مولانا فضل الرحمان کی آصف علی زرداری اور شہباز شریف سے حالیہ ملاقات اس منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ پی پی پی اور ن لیگ درپردہ آپس میں مکمل طور پر ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کے لیے اک دوسرے کی مدد کریں گے بلکہ کر بھی رہے ہیں۔ سندھ میں ڈاکٹر عاصم اور ماڈل ایان علی کے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری نثار علی خان تھے، جو بڑے احسن طریقے سے ہٹا دی گئی۔ سب کو یادہو گا کہ اس کا اظہار چوہدری نثار علی خان نے برملا کیا کہ پی پی پی کے سرکردہ لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے معاملے میں نرمی دکھائیں۔ پی پی پی، ن لیگ کے درمیان دوستی برقرار رہ سکتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے جانے کے بعد وہ تمام رکاوٹیں ہٹ چکی ہیں جو دونوں سیاسی جماعتوں میں وقتی خلیج بنی ہوئی تھیں۔

ڈاکٹر عاصم اور ماڈل ایان علی کی راہ کی رکاوٹ چوہدری نثار کو باآسانی ہٹایا گیا۔ (Photo: Dawn)

اس طرح آصف علی زرداری کے خلاف بھی نیب میں تمام کیس خفیہ ڈیل سے طے ہو چکے ہیں۔ اب پی پی پی اپنی وفاداری کا کہا ں تک ثبوت دیتی ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم تمام سیاسی جماعتیں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر عمران خان اقتدار میں آگئے اور انہوں نے احتساب کا جو نعرہ لگایا ہے، اس پر کار بند رہے، تو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین بہت بڑی قیامت سے دوچار ہو جائیں گے اور ان کے اربوں روپے جو غیر ملکی بنکوں میں پڑے ہیں، وہ غیر محفوظ ہو کر رہ جائیں گے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ق بھی درپردہ یہ نہیں چاہتی کہ عمران خان اقتدار میں آئیں۔ کیوں کہ ان کے خلاف بھی نیب کے کیسز چل رہے ہیں، تاہم حکمران جماعت کی طرف سے ان کو بھی خصوصی ریلیف مل رہا ہے۔

پی پی پی اور ن لیگ درپردہ ایک دوسرے کو بچانے کے لیے مدد کر رہے ہیں۔ (Photo: timesofislamabad.com)

جو سب سے خطرناک سازش عمران خان کے خلاف جاری ہے، وہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے قریبی عزیزوں پر مشتمل سیاسی کھلاڑی عمران خان کی ٹیم میں شامل کر چکی ہیں اور مزید بھی کریں گی۔ یہ لوگ آئندہ الیکشن کے بعد عمران خان کو کرپشن کے خلاف کسی بڑی کارروائی سے روکنے کے لیے لگام دے کر رکھیں گے اور ان کو ایسے مشوروں سے نوازیں گے کہ جن سے ان کی سیاسی ساکھ کوعوام میں بھرپور طریقے سے گرایا جا سکے اور حسبِ روایت ستر سالوں سے جو لوٹ مار کا کلچرسیاسی جماعتوں نے متعارف کروا رکھا ہے، اس کو جاری و ساری رکھا جا سکے۔
گو کہ اس وقت عمران خان کا عوام میں مقبولیت کا گراف انتہائی اُونچا نظر آ رہا ہے، پھر بھی تمام سیا سی پرانی جماعتیں پرامید ہیں کہ وہ اپنی محلاتی سازشوں کے زور پر اپنا ہدف ضرور پورا کرلیں گی اور عمران خان کو کسی صورت سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرنے دیں گی۔ پیش بندی کے طور پر پی پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری جاری رکھیں گی، جس سے عوام میں یہ تاثر جاتا رہے گا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف روائتی حریف ہیں، تاہم موجودہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے عوا م کو اتنا باشعور بنا دیا ہے کہ وہ دونوں جماعتوں کے اصل چہروں کو پہچان چکے ہیں اور آئندہ الیکشن میں ان کی تمام تدبیریں ناکام ثابت ہوں گی۔
اس تمام تر صورتحال میں بعض تجزیہ کار اس بات کا بھی عندیہ دے رہے ہیں کہ پی پی پی سندھ میں بھی بہت بری طرح ناکام ہوگی۔ کیوں کہ سندھ میں بھی کرپشن اور لوٹ مار کا پیسہ ’’بلاول ہاؤس‘‘ میں جانے کی خبروں نے پی پی پی کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ آئندہ الیکشن تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہی ہو گا، جو آنے والے حالات و واقعات کے پیش نظر حقیقی صورت میں سامنے آ سکے گا۔

بعض تجزیہ کار اس بات کا بھی عندیہ دے رہے ہیں کہ پی پی پی سندھ میں بھی بری طرح ناکام ہوگی۔ (Photo: Dawn)

ختم نبوت بل میں تبدیلی کا پیش خیمہ بھی مسلم لیگ ن ہی کو بھگتا پڑے گا کیونکہ مذہبی جماعتیں اس معاملہ کو بھرپور طریقے سے پرموٹ کر رہی ہیں۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔