لاہور سے سکھر تک کا سفر بڑا ہی خوش گوار رہا۔ سید منظور گیلانی کی قیادت میں اور ڈاکٹر نور محمد شجرا کی سرپرستی میں جیسے ہی خورشید شاہ کے اس شہر میں پہنچے، تو حیرت ہوئی کہ خوب صورت لوگوں کے اس پیارے اور قدیم شہرکی کوئی سڑک ٹھیک نہیں۔ کوئی خوب صورتی نہیں۔ سڑکوں پر دھول اور مٹی تو تھی ہی، ساتھ میں یہاں کی پولیس سرِعام ٹرکوں سے پیسے پکڑنے میں بھی مصروف تھی۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
ویسے تو ہماری پنجاب پولیس بھی کسی سے کم نہیں، کیوں کہ وہاں چوری کی واردات کے بعد مدعی اس ڈر سے تھانے نہیں جاتا کہ اب رہی سہی کسر تھانے دار پوری کرے گا۔
لاہور میں جی ٹی روڈ سنگھ پورہ سٹاپ کے پاس میاں زاہد کی پیزے کی دُکان ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے اس کا کیس اس کے حق میں ہوچکا ہے۔ بات پولیس تک پہنچی، تو پھر شیر جوانوں کی موجیں لگ گئیں۔ اتنے گاہک نہیں آتے تھے، جتنے مفت میں پیزا کھانے والے پولیس والے آتے تھے۔ بڑی مشکل سے میاں صاحب نے اُن سے جان چھڑائی، تو اسی دوران میں ان کی دُکان سے چور ایل سی ڈی اتار کرلے گئے، مگر انھوں نے اِس ڈر سے چوری کا مقدمہ درج نہیں کروایا کہ پولیس والے پھر سے تفتیش کے بہانے یہاں ڈیرے ڈال لیں گے…… مگر اب نگران وزیرِ اعلا محسن نقوی کے ڈر کی وجہ سے پنجاب پولیس کچھ سہمی ہوئی لگتی ہے۔
قارئین! مَیں بات کررہا تھا سکھر کی، جہاں ہم موجود ہیں…… یہاں کی ایک بڑی نام ور سیاسی شخصیت اور ہمارے میزبان سردار الٰہی بخش انیل بھٹی اور ان کے ساتھی اقبال احمدنے رات گئے دریائے سندھ کی سیر کروائی، تو وہاں پر جلتی ہوئی لائٹیوں کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔
انھوں نے بتایاکہ یہ لائٹیں بھی عدالت کے حکم پر لگائی گئی ہیں…… ورنہ تو برا حال تھا۔
سکھر سندھ کا ایک تاریخی شہر ہے، جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ، تاریخی شہر روہڑی سے براہِ راست ملا ہوا ہے۔
سکھر، کراچی اور حیدرآباد کے بعد سندھ کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا 14واں بڑا شہر ہے۔
نیا سکھر انگریز دور میں سکھر کے گاؤں کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔سکھر کا نام عربی لفظ ’’شکر‘‘ سے لیا گیا ہے جو کہ گنے کے ان کھیتوں کے حوالے سے ہے، جو تاریخی طور پر اس خطے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نام ’’سکھ‘‘ کے لفظ سے اخذ کیا گیا ہے جو سندھی لفظ ’’آرام‘‘ سے ماخوذ ہے۔
سکھر کے آس پاس کا خطہ صدیوں سے آباد ہے۔ اس کے مضافات میں ایک صنعتی پارک کے قریب واقع لکھن جودڑو کے کھنڈرات وادیِ سندھ کی تہذیب کے ہڑپہ دور سے 2600 قبلِ مسیح اور 1900 قبلِ مسیح کے درمیان300 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہے۔
سکھر، وادیِ سندھ کی تہذیب کا دوسرا سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے…… جو وادیِ سندھ کی تہذیب کے ایک اور بڑے شہر موہنجو داڑو سے صرف 75 کلومیٹر دور ہے۔ ’’پرانا سکھر‘‘ ابتدائی طور پر 1839ء میں ایک فوجی چھاؤنی کے قیام سے پہلے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔
سکھر دریائے سندھ کے کنارے چونے کے پتھر کے ایک نچلے حصے پر بنایا گیا تھا۔ یہ شہر کسی زمانے میں کھجوروں کے باغات سے گھرا ہوا تھا، جو روایتی طور پر 8ویں صدی میں عرب حملہ آوروں کی طرف سے ضائع شدہ کھجور کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔
سکھر کا گاؤں روہڑی کے بڑے شہر سے اس پار ہے جو 1200 کی دہائی تک دریائے سندھ کے ساتھ ایک مصروف بندرگاہ کے طور پر کام کرتا تھا اور زرعی پیداوار کا ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔
سکھر میں میر معصوم شاہ کے مزار پر 1607ء میں ایک 86 فٹ (26 میٹر) اُنچا میناربھی بنایا گیا تھا۔ انگریزوں نے 1839ء میں یہاں ایک فوجی چھاؤنی قائم کی، جسے 1845ء میں ترک کر دیا گیا۔ حالاں کہ سکھر ایک تجارتی مرکز کے طور پر اہمیت میں بڑھتا چلا گیا۔
سکھر میونسپلٹی 1862ء میں تشکیل دی گئی تھی۔ لانس ڈاؤن پل، سکھر کو سندھ کے پار روہڑی سے ملاتا ہے اور دریا کو عبور کرنے والے پہلے پلوں میں سے ایک تھا۔ اس پل نے کراچی اور ملتان کے درمیان سفر کو آسان بنا دیا۔ یہ دریا کے پار پھیلے ہوئے ستونوں کی ایک سیریز کی بجائے دو بڑے کھمبوں کے ساتھ بنایا گیا تھا، جس کا ڈیزائن غیر معمولی تھا۔
دریائے سندھ پر برطانوی راج کے تحت بنایا گیا سکھر بیراج (پہلے ’’لائیڈ بیراج‘‘ کہلاتا تھا) دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام میں سے ایک کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسے سر آرنلڈ مستو KCIE نے ڈیزائن کیا تھا اور اسے 1923ء اور 1932ء کے درمیان سر چارلٹن ہیریسن کی مجموعی سمت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 5,001 فٹ (1,524 میٹر) لمبا بیراج پیلے پتھر اور اسٹیل سے بنا ہے اور تقریباً 10 ملین ایکڑ (40,0002 کلومیٹر) کو پانی دے سکتا ہے۔ سات بڑی نہروں کے ذریعے اس کی مدد سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔
1947ء میں برطانوی ہند کی تقسیم کے موقع پر سکھر کا پرانا شہر تقریباً 10,000 رہایشیوں کا گھر تھا، جب کہ نیا سکھر 80,000 افراد پر مشتمل تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد شہر کی زیادہ تر ہندو آبادی ہندوستان کی طرف ہجرت کرگئی۔ حالاں کہ سندھ کے بیشتر حصوں کی طرح سکھر کو پنجاب اور بنگال میں ہونے والے وسیع فسادات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق سکھر کی تقریباً 70 فی صد آبادی ہندو تھی۔ تقسیم کے نتیجے میں 1951ء کی مردم شماری تک یہ تعداد کم ہو کر 2 فی صد رہ گئی۔
سکھر میں سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ 1950ء میں قائم کی گئی تھی۔ ایوب پل 1962ء میں بنایا گیا تھا اور یہ برطانوی دور کے لینڈز ڈاؤن پل کے ساتھ دریائے سندھ پر پھیلا ہوا ہے۔
2010ء کے پاکستان میں آنے والے سیلاب کے دوران میں شہر کو بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس نے شہر کے بڑے حصے کومتاثر کیا۔
سکھر کی معیشت کا زیادہ تر انحصار شمالی سندھ کے کھیتوں سے حاصل ہونے والی زرعی پیداوار پر ہے۔ یہ زرعی سامان کے لیے تجارتی اور پروسیسنگ مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس شہر میں کسی زمانے میں جہاز سازی کی صنعت بھی تھی۔
سکھر ایک بڑا زرخیز اور قابلِ کاشت اراضی علاقہ ہے، جہاں خریف کے دوران میں چاول، باجرہ، کپاس، ٹماٹر اور مٹر کی کاشت کی جاتی ہے…… جب کہ ربیع کے دوران میں اہم فصلیں گندم، جو، گراہم اور خربوزہ ہیں۔
سکھر اپنی کھجوروں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ریورائن کا ایک بڑا جنگل بھی ہے۔ یہ جنگلات سندھ کے دونوں طرف حفاظتی پشتوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔
شہر کو M-5 موٹروے کے ذریعے لاہور، اسلام آباد اور پشاورسے جوڑا جا چکا ہے۔ عنقریب سکھر کو M-6 موٹروے کے ذریعے حیدرآباد سے بھی جوڑا جائے گا اور پھر M-9 موٹر وے کے ذریعے کراچی سے منسلک ہوگا، جب کہ M-5 اور M-6 کے ذریعے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حصے کے طور پر بنایا جا رہا ہے۔
سکھر ریلوے اسٹیشن بھی تاریخی ہے، جہاں راولپنڈی اور کوئٹہ کے درمیان چلنے والی ’’جعفر ایکسپریس‘‘، کراچی اور جیکب آباد کے درمیان چلنے والی ’’سکھر ایکسپریس‘‘ اور کوئٹہ اور پشاور کے درمیان چلنے والی ’’اکبر ایکسپریس‘‘ کا سٹاپ ہے۔
سکھر ایئرپورٹ جو شہر سے 8 کلومیٹر باہر واقع ہے، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ذریعے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے لیے براہِ راست پروازیں فراہم کی جاتی ہیں۔
سکھر شہر، سکھر ڈویژن اور سکھر ضلع کا دارالحکومت ہے۔
سکھر ضلع میں چار تحصیلیں اور کئی یونین کونسلیں ہیں۔
سکھر سندھ ہائی کورٹ کے تین سرکٹ بنچوں میں سے بھی ایک ہے۔
سکھر کی آئی بی اے یونیورسٹی پاکستان کے بزنس اسکولوں میں سے ایک ہے، جس کی بنیاد 1994ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان بزنس اسکول رینکنگ 2013ء میں شامل پاکستان کے پانچ آزاد بزنس اسکولوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اسلامیہ سائنس کالج سکھر کی بنیاد سید حسن میاں ایڈوکیٹ نے رکھی تھی اور وہ اپنی وفات تک کالج کے چیف سرپرست بھی رہے۔ سید حسن میاں ایڈوکیٹ نے سکھر کے معزز خاندانوں کی مدد سے سکھر میں 25 اسکول اور ووکیشنل سینٹرز کی بنیاد رکھی، وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی بھی تھے۔
سردار الٰہی بخش انیل بھٹی نے گزرتے ہوئے ہمیں ایشیا کی سب سے بڑی کھجور منڈی بھی دکھائی، جس کے باہر والی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ جتنی بڑی منڈی، اُتنی ہی گندی سڑک……!
ویسے تو پورے شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا ہے…… یہ خورشید شاہ کا شہر بالکل نہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنے شہر کی تاریخی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اِسے ایشیا کا خوب صورت شہر بنائیں۔ ورنہ زمانہ بدل رہا ہے…… ایسا نہ ہو کہ یہ شہر آپ کے ہاتھ سے نکل جائے۔ کیوں کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ خبر جیسے ہی نکلی،جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔