مغرب میں استاد ہوں یا طالب علم…… اُنھیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پڑھائی یا کسی بھی مقصد کو حاصل کرنا ایک فن ہے…… اور اُس فن کو سمجھنے کے لیے سائنس کا سہارا لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
افسوس کہ ہمارے یہاں سائنس اور دانش دونوں کا فقدان ہے۔ ہمارے اُستاد اور بڑے کبھی اپنا دانش ہمارے ساتھ شیئر نہیں کرتے۔ سمجھ دار بڑوں کے فقدان کی وجہ سے ہم سب بار بار پہیے کو ایجاد (Reinventing the Wheel) کرکے اپنا وقت ضائع کررہے ہیں…… جس سے نہ صرف انرجی اور وقت ضائع ہوتا ہے، بلکہ ہم اُس مقام تک بھی نہیں پہنچ پاتے جس کی ہم میں صلاحیت ہوتی ہے…… اور اسی کو ’’ایش اور حسن‘‘ (Ash and Hassan) اپنی کتاب میں غیر منصفانہ فائدہ (Unfair Advantage) کہتے ہیں، جو اُن بچوں کے پاس ہوتا ہے جن کو سمجھ دار اور ’’پروڈکٹو‘‘ (Productive) بڑے بزرگ ملتے ہیں۔
اپنے معاشرے کے سوئے ہوئے بڑوں کو الزام دینے کے بعد اب اصل ٹاپک پر آتے ہیں (یقینا اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں…… ہمارا ماضی اور حال دونوں ہی ٹروما اور غربت پر مشتمل ہے ۔)
’’تم نالائق ہو‘‘، ’’کھیل کود میں تو بہت دل لگتا ہے تمھارا…… بس پڑھائی میں ہی نہیں لگتا‘‘، ’’تم بہانے کررہے ہو‘‘، ’’اُس فُلاں بندے کو دیکھو…… کیسے سارا دن پڑھتا رہتا ہے‘‘ وغیرہ، ہمارے یہاں کے نیشنل جملے ہیں۔ کسی ٹائم میں اپنے بیٹے کو بھی اس قسم کے طعنے دیتی تھی۔ کیوں کہ پڑھائی کو لے کر ہماری سوچ اور توقعات دونوں ہی غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ کیا کبھی ہم نے ’’نیورو سائنس‘‘ (Neuro Science)، ’’ارتقائی بیالوجی‘‘ (Evolutionary Biology) اور ’’ارتقائی سائیکالوجی‘‘ (Evolutionary Psychology) کے زاویے اور اُن کی مدد سے دماغ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کیسے کرتا ہے؟
کئی ملین سالوں سے جو ماحول اور حالات ہمارے دماغ نے سہے، اُن کا اس کے فعل (Function) پر کیا اثر ہوا ہے…… اور اس ماڈرن دنیا میں یہ کس طرح سے نئے معاملات کی جانب اپنا ردِ عمل (Reaction)) دکھاتا ہے؟ کم زور، ڈر اور خوف میں رہنے والے انسان (Hunter Gatherer) کے لیے جنگل میں سب سے اہم تھا اپنا اور اپنی نسل کا بقا…… جنگل میں انسان کو بیالوجی اور طبیعات کے قوانین یا روحانیت سے منسلک سوالات کا سامنا نہیں تھا۔ کھانا، تحفظ اور نسل بڑھانا…… یہی مقاصد تھے انسان کے۔ ان کاموں کے لیے ہمیں زیادہ فوکس کرنے کی ضرورت نہیں تھی…… اور یہی وجہ ہے کہ ہم انسانوں کا فوکس کم زور ہوتا ہے، یا پھر ہم ایک مخصوص ٹائم سے زیادہ توجہ نہیں دے پاتے ۔
ماڈرن دنیا میں تاخیر (Procrastination) ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مجھے خود بھی اس کا سامنا رہا ہے…… اور اس کی وجہ سے مَیں ہمیشہ خود کو کوستی رہی کہ مَیں نکمی عورت ہوں…… تبھی کام ٹالتی رہتی ہوں۔ کیوں کہ مجھے اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں…… لیکن بھلا ہو مغرب کے سائنس دانوں، استادوں اور سلجھے ہوئے طالب علموں کا جنھوں نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ہم تاخیر کیوں کرتے ہیں……اور ہمیں اس سے کس طرح نمٹنا چاہیے؟
اگر تو آپ کو کسی قسم کا ’’انزائٹی ڈساڈر‘‘ (Anxiety Disorder) یا ’’ٹروما‘‘ نہیں، تو پھر یہ آرٹیکل آپ کے لیے ہے۔ کیوں کہ ٹروما والے بچوں کا مسئلہ عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ آرٹیکل اُن بچوں کے لیے ہے، جو باقی کے کام کرتے وقت تو نارمل ہوتے ہیں…… لیکن جہاں پڑھائی یا مقصد (Goal) سے منسلک کام کرنا ہو، تو انھیں انزائٹی ہونے لگتی ہے…… اور وہ اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں۔
آپ کا دماغ ایک سمجھ دار ڈیزائن ہے اور اس ڈیزائن کو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ توانائی لگانا پسند نہیں کرتا، جہاں مقصد واضح نہ ہو…… اور جہاں نظم و ضبط کی کمی ہو، جہاں اس بات کا مکمل یقین نہ دلایا جائے کہ جو مقصد یا گول ہم نے سیٹ کیا ہے، اُسے کتنی جلدی حاصل کیا جاسکتا ہے…… اور اُسے مکمل کرنے پر جو انعام ملے گا، وہ کتنا فائدہ مند ہے…… اور کیا آپ میں اُس مقصد کو حاصل کرنے کی قابلیت ہے بھی یا نہیں…… یا پھر آپ نے جذبات میں آکر اور خاندان/ دنیا والوں کے سامنے اپنا آپ ثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ مقاصد طے کرلیے ہیں؟
اب جب آپ کوئی موٹیویشنل وڈیو دیکھ کر جذبات میں آکر مقاصد طے کرلیتے ہیں، لیکن آپ کے پاس کوئی پلان ہے، نہ حکمتِ عملی، نہ ہی خود نظم و ضبط (Self- discipline) اور سب سے بڑھ کر آپ میں اُس گول کو حاصل کرنے کی قابلیت بھی نہیں۔ کیوں کہ فرض کریں کہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو ہنر (Skill Set) چاہیے، پیچیدہ تصور (Complex Concepts) کو سمجھنے کے لیے جو بنیادی علم اور سمجھ درکار ہے، وہ آپ کے پاس نہیں…… اور آپ کے مقصد میں اور آپ کے پاس موجودہ علم اور سمجھ میں بہت بڑا خلا (Gap) ہے، وہ خلا اتنا وسیع ہے کہ جب آپ اس مقصد سے منسلک کام کو سمجھنے بیٹھتے ہیں، تو آپ کا دماغ انزائٹی میں چلا جاتا ہے اور پھر تاخیر کرنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ کہتا ہے کہ ’’مَیں کسی بھی ایسے کام پر انرجی لگانے میں تمھاری مدد نہیں کروں گا، جس کی نہ ہم میں قابلیت ہے، یا پھر میرے لیے اتنے زیادہ مقاصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں، تم نے کوئی پلان یا حکمتِ عملی بھی نہیں بنائی اور نہ تم میں خود نظم و ضبط ہی ہے۔‘‘
آپ کا ’’ذہن‘‘ چلا چلا کر کہتا ہے کہ تم سب کرسکتے ہو، لیکن آپ کا دماغ کہتا ہے کہ میری کچھ حدود ہیں۔ مَیں اتنا سب کچھ نہیں کرسکتا۔ تم پہلے مجھے سمجھو کہ مَیں کس طرح سے کام کرتا ہوں۔ پھر تم ٹریننگ کے ذریعے مجھ سے وہ کروا سکتے ہو، جو تم کرنا چاہتے ہو۔
آپ جتنا اپنی پلیٹ میں زیادہ کھانا ڈالیں گے…… اور وہ بھی کئی مختلف ذائقوں والا، تو پھر آپ کا دماغ اسے نہیں کھا سکے گا۔ دماغ کو وضاحت پسند ہے۔ اسے نظم و ضبط (Discipline) پسند ہے۔ اس کو پیشین گوئی (Predictability) سے عشق ہے۔ کیوں کہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم روز اس وقت پر اس جگہ بیٹھ کر پڑھتے ہیں، تو وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے…… اور اس کے لیے آپ کا ساتھ دینا آسان رہتا ہے۔
آپ کے دماغ کو یقین (Certainty) سے محبت ہے (تھوڑی بہت عدم یقینی کی صورتِ حال بری نہیں، وہ بھی ہمارے دماغ کی گروتھ کے لیے اچھی ہے، لیکن زیادہ نہیں) جب اسے یقین ہو کہ ہاں! ہم یہ کرلیں گے۔ کیوں کہ ہمارے مقاصد حقیقت پسندانہ اور کم ہیں اور پڑھتے وقت کوئی خلفشار (Distraction) آس پاس نہیں، تب وہ موٹیویٹڈ ہوکر آپ کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔
خلفشار، انسان کی توجہ دینے کی صلاحیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ چوں کہ ہمارے دماغ کو توجہ دینے میں دقت ہوتی ہے، تبھی ہمیں ذرا سی آہٹ یا فون پر آنے والی اطلاع (Notifications) اپنی جانب کسی مقناطیس کی مانند کھینچتی ہیں۔اپنی قیمتی توجہ کو مزید بہتر کرنے کے لیے خلفشار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سب تربیت (Training) کا کھیل ہے !
’’ٹاؤ ازم‘‘ کا فلسفہ ہے: کم ہی زیادہ ہے (Less is More)…… اور اسے فضول نہ سمجھیں کہ کم کیسے زیادہ ہوسکتا ہے!
کم مقاصد پر معیاری ٹائم دیں گے، تو آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ کم ہی کیوں بہتر ہے؟اپنے مقاصد کو کم کریں اور حقیقت پسندانہ مقاصد بنائیں۔ اپنی قابلیت اور اپنی شخصیت اور صلاحیتوں کا حقیقی جائزہ لیں…… اور سب سے بڑھ کر جو بھی مقصد حاصل کریں، تو اس بات کا دھیان رہے کہ اگر اس مقصد سے منسلک ہنر کی کمی ہے، تو اُس ہنر کو تراشیں، بنیاد پر کام کریں، مقصد کو حاصل کرنا آسان ہوجائے گا…… اور اگر کبھی آپ کا دماغ تاخیر کرے بھی، تو اسے کرنے دیں۔ تھوڑا بہت ٹالنا چلتا ہے۔ اکثر اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کے دماغ کو آرام کی ضرورت ہے…… اسے آرام دیں، تاکہ وہ تروتازہ ہوکر دوبارہ کام پر لگ جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔