یہ پانچ نوجوان تھے۔ تعلق سب کا کانجو اور ملحقہ علاقوں سے تھا۔ حاشر، ناظر، ساحر، طاہر اور ظاہر (یہ سب فرضی نام ہیں، کیوں کہ اصل نام لکھ کر مَیں ان کے لیے مسئلہ کھڑا نہیں کرنا چاہتا)
یہ لوگ میرے اردگرد گاڑی میں بیٹھے تھے۔ کوئٹہ سے سوات تک کم از کم 19 گھنٹے کا طویل اور مشکل سفر کاٹنا بھی آسان نہیں۔ اس لیے کسی نہ کسی بہانے سے باتوں کا دور چلتا ہے، تاکہ سفر کی تھکاوٹ سے چھٹکارا پایا جاسکے۔ سفر میں ان نوجوانوں سے تعارف کا دور چل نکلا۔ پھر بات نکلی اور ایسی نکلی کہ دور تک چلی گئی۔ تعارف سے پہلے گم سم بیٹھے ان نوجوانوں کو دیکھتا رہا۔ تو جسم سے تھکاوٹ، چہروں سے مایوسی، آنکھوں سے بے خوابی اور سر کے بالوں سے بدحالی واضح تھی۔ کسی کی شلوار ایک رنگ تو قمیص دوسرے رنگ کی تھی۔ کوئی چپل تو کوئی بوٹ پہنے ہوئے تھا۔ گفتگو کا سلسلہ چل پڑا، تو معلوم ہوا کہ یہ سب بہتر مستقبل کے سہانے خواب لیے یورپ جانا چاہتے تھے۔ غیرقانونی تارکینِ وطن کا آزمودہ اور پرانا راستہ یعنی بلوچستان، ایران سے ترکی اور آخرِکار یورپ پہنچنا تھا۔ قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ ایران میں پکڑے گئے۔ ایک مہینا جیل میں بند رہے۔ آخر ’’ڈی پورٹ‘‘ کیے گئے اور اب یہ گھر واپس جا رہے تھے۔ اس حال میں کہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے تھے ۔تفصیل معلوم ہوئی، تو غصہ اور افسوس کے ملے جلے احساسات نے مجھے گھیر لیا۔
میرے غصہ کی دو وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ یہ کہ ان پانچ میں سے دو پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ دو کپڑے کے تاجر اور ایک کا خاندانی کراکری کا کامیاب کار و بار تھا۔ ایسے میں غلط طریقے سے غلط راستے کے ذریعے یورپ جانے کا سفر شروع کرنا خود کُشی ہی ہے۔ کیوں کہ مذکورہ کٹھن راستے سے جانے والوں میں 99 فی صد یورپ نہیں بلکہ اللہ میاں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ کہ اگر پانچوں اتنے خوش حال ہیں کہ مینگورہ میں کار و بار کرسکتے ہیں، تو ’’وزٹ ویزہ‘‘ یا پھر تعلیمی ویزہ پر یورپ بھی جاسکتے ہیں۔ پھر اس مشکل سفر کا انتخاب کیوں؟
بہرحال غصے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بقول ان لوگوں کے ان کو ورغلانے والا ایجنٹ جس کا تعلق سوات سے ہے، فیڈرل انوسٹی گیٹو ایجنسی (ایف آئی اے) سے ہے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے میں موجود ذرائع سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر اس تحریر تک ان کا جواب نہیں ملا۔ لہٰذا اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ ممکن ہے ان نوجوانوں کی بات غلط ہو اور ایف آئی اے کا کوئی اہلکار ایسا کام نہیں کررہا ہو۔ کیوں کہ اس ادارے کے کام میں دیگر کے علاوہ انسانی سمگلنگ کی روک تھام بھی ہے، نہ کہ انسانی سمگلنگ میں معاون یا ایجنٹ بننا۔
لیکن ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں سرکاری اور ریاستی اداروں کی سرپرستی اور پشت بانی کے بغیر یہ سمگلنگ ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ ایسے میں اگر ہر روز ہزاروں جوان انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھتے ہیں، تو یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ ریاستی اور سرکاری اداروں کو مکمل معلومات میسر ہیں، لیکن چشم پوشی کے پیچھے اس کاغذ کا زُور ہے جس پر بابائے قوم کی سنجیدہ پوز والی تصویر نقش ہے۔
اس طرح مجھے افسوس کا احساس اس لیے ہوا کہ آخر ہمارے خوب صورت سوات میں کمی کس چیز کی ہے؟ جو یہ نوخیز کلیاں اپنی جنت نظیر وادی چھوڑ کر دیارِ غیر میں ’’لٹرین‘‘ کی صفائی جیسے کاموں کے لیے بھی جانے کو بے تاب ہیں۔ پاکستان کے ’’سوئیزر لینڈ‘‘ کہلانے والے اس سوات میں لاہور کے لکشمی چوک سے مشہور ہونے والے کڑاہی فروش نے مہنگا ترین ریسٹورنٹ بنایا اور خوب کما رہا ہے۔ اسی سوات میں باہر سے آنے والوں نے ملم جبہ میں ہوٹل بنا کے اس کی پارکنگ کے بھی پانچ سو سے زیادہ روپے لے رہے ہیں۔ یہ تفصیل طول طویل ہے، لیکن اسی سوات سے میرے نوجوان ایک غیر قانونی راستے کا انتخاب کرکے بیرونِ ملک جانے کو بے تاب ہیں، کیا یہ کسی المیے سے کم ہے؟
کیا یہ ’’برین ڈرین‘‘ نہیں؟
کیا اس بارے سوات کے ’’مشران‘‘ نے ابھی تک کچھ سوچا ہے؟
قارئین، چار سال ہوئے کوئٹہ آتے جاتے۔ ہر دوسری تیسری بار مَیں ایسے نوجوانوں سے ملتا ہوں، جو ناکام واپس ہوتے ہیں ترکی، ایران اور تفتان بارڈر سے…… مگر مَیں ان واپس ہونے والوں کوخوش قسمت سمجھتا ہوں کہ کم از کم زندہ سلامت تو واپس آجاتے ہیں۔ ورنہ جو اس کٹھن راستے کے صحراؤں، برف زاروں اور جیلوں میں رزقِ خاک ہوچکے ہیں، ان کا تو حساب ہی مشکل ہے۔
اے میرے سوات کے پیارے جوانو! اس وطن کی سلامتی اور خوب صورتی آپ ہی کی نوجوانی کی بدولت ہے۔ اس رعنا جوانی کو دیارِ غیر کی رنگینیوں کی نذر کرنے سے بہتر ہے کہ یہاں پر اپنا پسینہ بہائیں۔ مجھے امید ہے محنت کے اس پسینے سے مشک و عنبر کی خوشبو نکلے گی اور اسی محنت سے یہ جنت نظیر وادی زعفران زار بن جائے گی۔
خدارا! خود کو پہنچانو۔ باہر جانے کے غیر قانوی راستے اپنانا چھوڑ دو!
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔