زبان کی ابتدائی سطح بولی کہلاتی ہے، جو روزمرہ کے معاملات، کاروباری لین دین اور سماجی روابط کو بحال اور متحرک رکھنے میں ممد و معاون ہوتی ہے۔ عوام کی اکثریت زبان کی اسی صورت، پرت یا سطح سے کام چلا لیتی ہے۔ جب اس میں ادب (Literature) تخلیق ہونے لگتا ہے، تو یہ زبان (Language) کے درجے پر فائز ہوجاتی ہے۔ سوسائٹی کا باشعور طبقہ (ادیب، شاعر، نقاد، خطیب، واعظ، مبلغ اور معلم وغیرہ) زبان کے اسی رنگ، ڈھنگ سے نہ صرف خود استفادہ کرتا ہے بلکہ اپنا مدعا دوسروں تک بہتر انداز میں پہنچانے کے لیے اس کی انہی نزاکتوں اور نفاستوں کو کام میں لاتا ہے۔
(پروفیسر گیان چند کی تصنیف ’’عام لسانیات‘‘،مطبوعہ ’’ادارہ تاریخ و ثقافتِ اسلامیہ‘‘، سنِ اشاعت 2019ء، صفحہ نمبر 5)