ہم نے گذشتہ کالم میں بنگلہ دیش کی صورتِ حال واضح کرنے کی کوشش کی تھی اور شیخ حسینہ سابق وزیرِ اعظم کی سیاسی غلطیوں کی نشان دہی کی تھی۔
لیکن اس تمام تر صورتِ حال کا دوسرا پہلو بیان کرنے کی کالم میں گنجایش نہ تھی۔ آج ہم اس معاملے کے دوسرے پہلو پہ یا یوں کَہ لیں کہ تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی کوشش کریں گے۔
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ بے شک اپنے دور میں شیخ حسینہ سے شدید سیاسی غلطیاں ہوئیں، لیکن کیا اس تمام تر صورتِ حال کی وجہ وہ غلطیاں تھی، یا اس کے پیچھے کچھ خفیہ معاملات بھی تھے؟ اس ’’بین الاقوامی سازش‘‘ کو سمجھنے کے لیے آئیں، ہم آپ کو اس جدید دور میں ماضیِ قریب کی ایک مثال یا واقعہ سے آگاہ کریں۔
1977ء میں ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایک مضبوط حکومت قائم تھی۔ اُس وقت بھٹو صاحب ملک کے مقبول ترین حاکم تھے، لیکن پھر اچانک اُن کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ کراچی سے خیبر تک استعفا کا مطالبہ شروع ہوگیا۔ اچانک سے ’’فخرِ ایشیا‘‘، ’’لیڈر آف تھرڈ ورلڈ‘‘اور ’’غریبوں کا قائد‘‘ ملک کا ’’غدار‘‘، اسلام کا منکر، قاتل اور شرابی بن گیا۔ ہر طرف جلاو گھیراو شروع ہوگیا۔ ملک کی بڑی سیاسی قیادت جن میں نواب زادہ نصرﷲ خان، خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، مولانا مودودی، اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار عطاء اﷲ مینگل وغیرہ گرفتار کرلیے گئے، لیکن چوں کہ جماعتِ اسلامی کا نوجوان کیڈر اس میں بہ راہِ راست ملوث تھا، سو اس وجہ سے تحریک میں کمی نہ آئی۔
بھٹو حکومت نے فوج کو طلب کرلیا۔ کراچی، لاہور اور پشاور میں تقریباً مارشل لا لگا دیا گیا، لیکن تحریک روز بہ روز بڑھتی ہی گئی۔ پہلے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا، لیکن جب محسوس ہوا کہ حکومت متنازع حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروانے کے لیے تیار ہے، تو پھر ’’نظام مصطفی‘‘ کا مطالبہ آگیا۔ جب اس پر حکومت نے لچک پیدا کی، تو پھر ’’اول احتساب پھر انتخاب‘‘ کا شوشا چھوڑا گیا۔ ہر طرف ’’غدار غدار‘‘، ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کی کہانی شروع ہوگئی اور پھر 5 جولائی کی وہ سیاہ رات آگئی کہ جو 11 سال پر محیط رہی۔ جس رات بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا، اُس کے اگلے دن ’’مبارک سلامت‘‘ شروع ہوگئی۔ ’’انقلاب‘‘ کی ’’کام یابی‘‘ کا اعلان ہوا۔ مٹھایاں تقسیم ہوئیں۔ ملک کی خوش حالی کی نوید سنائی گئی، لیکن پھر وہ وقت آیا جب اس تحریک کے شرکا پر انکشاف ہوا کہ وہ استعمال ہوگئے۔ اصل کھیل کوئی اور تھا، اورکسی اور کا تھا۔ ان کے پاس چند کتابی نعرے تھے اور سراب زدہ مستقبل کی امید۔ درحقیقت یہ تحریک انقلابی نہیں، بل کہ سازشی تھی۔ یہ بہت بعد میں انکشاف ہوا کہ اس تحریک کی پالیسی کے پیپر بھی واشنگٹن سے ’’انکل سام‘‘ بھیجتے تھے اور خرچہ کے ڈالر بھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہوٹہ پر کمپرومائز سے انکار کر دیا تھا اور پھر افغانستان پر مکمل عدم تعاون کا فیصلہ کرلیا تھا۔
بھٹو شاید ملک بچاتا رہا اور مخالفین ’’انقلاب‘‘ لاتے رہے اور سالوں بعد سی آئی اے کے کلاسیفائیڈ کاغذات نے یہ انکشاف کیا کہ ’’انکل سام‘‘ نے تاریخ میں پہلی بار ایک خاص حکمت عملی کے ذریعے ایک مقبول ترین راہ نما کو کرسی سے اُتار کر پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا۔ اسی طرح کے ڈھیر سارے انقلاب دنیا میں ’’انکل سام‘‘ لے کر آئے اور کئی انقلاب ’’سرخ ہاتھی‘‘ بھی لے کر آیا، لیکن وہ دراصل انقلاب نہیں ہوتے، بل کہ کچھ اہم شخصیات کو انقلاب کے نام پر بھلی چڑھا دیا جاتا ہے۔
پیچھے بیٹھ کر جو طاقتیں کچھ شخصیات کو عبرت کی مثال بناتے ہیں، پھر اُن کو کام یابی کے بعد اس بات سے قطعی کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ پیچھے اُس ملک و قوم کے حالات کیا ہیں یا کیا ہوں گے؟ سانحہ و المیۂ مشرقی پاکستان پر مرحوم بریگیڈیر صدیق سالک نے ایک کتاب لکھی تھی ’’مَیں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘، جس میں اُنھوں نے ایک بہت دل چسپ بات تحریر کی ہے کہ ’’مغربی پاکستانیوں کا پاکستان ٹوٹ گیا، جب کہ بنگالیوں نے اپنے تئیں آزادی حاصل کرلی۔ لیکن جب بنگالی نوجوان آزادی کا جشن منا رہے تھے، تو مَیں نے دیکھا کہ ایک غریب بنگالی اسی طرح مایوسی اور مشکل کی تصویر تھا۔ اس کی زندگی آسانی کی بہ جائے مزید مشکلات کا شکار ہو چکی تھی۔ ‘‘
سو اس تمام تاریخی پس منظر میں یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ موجودہ بنگالی انقلاب کی حیثیت کیا ہو گی یا کیا ہو سکتی ہے؟اب میں نہیں جانتا کہ موجودہ بنگلہ دیش کے حالات واقعی عوامی خواہشات کے تحت ہیں، یا واشنگٹن سے بنائے گئے ہیں؟ لیکن بہ ظاہر محسوس یہی ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں کہ جتنا نظر آتا ہے۔ اَب کچھ دن بعد شیخ حسینہ نے بہت کھل کر کَہ دیا ہے کہ اُن کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے۔ کیوں کہ وہ ایک بنگالی جزیرے کو اُن کے حوالے کرنے سے انکاری تھیں کہ جو امریکی پلان کے مطابق اس عیسائی ریاست کا حصہ ہوتا کہ جو امریکی میانمار کے کچھ حصے کو علاحدہ کرکے بنانے جا رہے تھے، یا کم از کم ایسا سوچ رہے تھے۔
اَب اس تمام تر صورتِ حال میں دو قسم کے نظریات سامنے آرہے ہیں۔ پہلا، تو وہی کم از کم پاکستان کے ایک عام آدمی کے حوالے سے کہ چوں کہ حسینہ واجد مکمل طور پر بھارت کی جھولی میں تھی اور اس کے آمرانہ و ظالمانہ اقدامات تھے۔ سو عوام شیخ حسینہ کی اس ظالم حکومت کے خلاف نکل آئے، اور شیخ حسینہ کو اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔
دوسرا نکتۂ نظر جو کہ دنیا کے بڑے بڑے ’’تھنک ٹینک‘‘، اعلا صحافتی و سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے کہ شیخ حسینہ کے خلاف سازش کہیں اور ترتیب دی گئی اور مقصد حسینہ کو سبق سکھانا تھا۔
مَیں نے ذاتی طور پر دونوں نکتۂ نظر کا جائزہ لیا اور بہت گہرائی سے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر نتیجہ یہ نکالا کہ بین الاقوامی سازش والے بیانیہ میں بہت جان ہے۔ شیخ حسینہ سے اختلاف اپنی جگہ، اُن کی کم زوریاں اور غلط پالیسیاں اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں، لیکن جس طرح واقعات کا رُخ بدلا، اُس نے سازش والے بیانیے کو بہت تقویت دی۔ شیخ حسینہ کی یہ بات نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں کہ اُن کی حکومت کو بنگلہ دیش کے چند طلبہ نے نہیں، بل کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے تبدیل کیا۔
اب آئیں اس نام نہاد انقلاب کی شروعات کو سمجھیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ شیخ حسینہ کی کوٹا پالیسی پر احتجاج ہو سکتا تھا۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس احتجاج میں عوام کی ایک بڑی اکثریت شامل ہو سکتی تھی۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس احتجاج کو غلط طور پر ہینڈل کیا گیا۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ احتجاج حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا تھا، لیکن اگر یہ احتجاج واقعی عوام میں سے ہوتا، تو شیخ حسینہ جیسی سینئر اور سکہ بند سیاست دان اتنی بھی تو احمق نہ تھی کہ وہ معاملے کی نزاکت کو نہ سمجھ سکتی۔ اس احتجاج کا زیادہ سے زیادہ منطقی نتیجہ یہ نکلتا کہ حسینہ حکومت کوٹا سسٹم کو واپس لے لیتی…… یا چلو بہت زیادہ حد ہوجاتی، تو عوامی لیگ کی حکومت مستعفی ہوجاتی اور ملک میں سیاسی آزادیاں بہ حال ہو جاتیں، اور نئے انتخابات ہو جاتے…… لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ حالات اس طرح بنے کہ بانی بنگلہ دیش کی بیٹی، ملک کی ایک منظم سیاسی جماعت کی سربراہ اور مقبول سیاسی راہ نما کو ملک چھوڑ کر جانا پڑتا۔
درحقیقت وہ تحریکِ لبیک کے بانی (مرحوم) خادم حسین رضوی کا ایک جملہ سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوا تھا کہ ’’پترو! گل وچوں اور اے!‘‘ یعنی بیٹا اندر کی بات کچھ اور ہے۔ یہاں اندر کی بات یہ ہے کہ حسینہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں کہ ’’اصل گل‘‘ مطلب بات کیا ہے؟ کیوں کہ جب مَیں نے بنگلہ دیش میں شروع ہونے والی تحریک کا گہرائی سے جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ اس تحریک کی قیادت کرنے کے لیے ملکی سطح کی کوئی سحر انگیز مقبول شخصیت موجود ہی نہ تھی۔ اس تحریک کی عملی قیادت جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم جو پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نام سے ہے، کے پاس تھی۔ اول تو جب جماعتِ اسلامی ہراول دستہ پر ہو، تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ انقلاب لازماً سامراجیت کا شاخسانہ ہے۔ کیوں کہ اب تک ہمارا تجربہ یہی ہے۔ دوم، جب جماعتِ اسلامی آگے ہوتی ہے، تو پھر پیچھے کوئی ہو نہ ہو، فوج تو ہوتی ہی ہے۔ اور فوج تب ہوتی ہے تیسری دنیا کے ممالک میں جب ہدایات ’’انکل سام‘‘ واشنگٹن سے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جماعتِ اسلامی کا ایک اور بھی مزاج ہے کہ یہ جماعت دباو بناتی ہے۔ کیوں کہ ڈالر کئی اورسے آتے ہیں اور جب ایک خاص حد تک دباو بن جاتا ہے، تو حکومت کمپرومائزنگ پوزیشن پر آجاتی ہے۔ پھر اُن کا بنیادی مطالبہ ختم ہوجاتا اور اس کی جگہ مزید مطالبات آجاتے ہیں۔ مثلاً: ماضیِ قریب میں پاکستان میں انتخابات میں دندھلی کے خلاف چلنے والی تحریک (تحریکِ نظامِ مصطفیؐ) سے ہوتی ہوئی پہلے احتساب پھر انتخاباب پر پہنچ گئی۔ تقریباً یہی کام مصر، سوڈان اور الجزائر میں ہوا۔ جماعتِ اسلامی اس کو اس نہج پر لے جاتی ہے کہ یا تو خصوصاً اگر مخالف آمر ہو، تو آمر خود انکل سام کے سامنے سر بہ سجود ہوجاتا ہے، یا پھر اگر کوئی ذوالفقار علی بھٹو یا شیخ حسینہ کی طرح کا عوامی قوم پرست لیڈر ہو، تو وہ لٹکا دیا جاتا ہے، یا ذلیل کرکے ملک بدر ہو جاتا ہے۔
یہ کیسا انقلاب ہے کہ آپ کوٹا سسٹم پر احتجاج کرنے آئے اور مان لیا کہ آپ کام یاب ہوگئے، مگر اختلاف شیح حسینہ سے تھا اور آپ نے اپنے بانی کے مجسمے توڑنا شروع کر دیے۔ اُن پر پیشاب کر کے اُن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنا شروع کر دی۔ پھر مان لیں کہ آپ انقلابی نہیں، فسادی ہیں۔ آپ کا مقصد چور دروازے سے ایوانِ اقتدار پر قبضہ جمانا تھا۔ نہیں تو اُن کا مطالبہ یہی رہنا چاہیے تھا کہ کوٹا سسٹم ختم کرو، یا زیادہ سے زیادہ شیخ حسینہ حکومت ختم کرکے غیر جانب دارانہ حکومت قائم کی جائے اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔
وزیرِاعظم کے گھر پر بہ راہِ راست حملے کا اعلان کرنا دوسرے الفاظ میں وزیرِ اعظم کی جان لینے کی دھمکی دینا، چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکی دینا، کہاں کا انقلاب ہے! کیا انقلابیوں نے ایک بار بھی آرمی چیف کے بارے میں اس طرح دھمکی آمیز بات کی ہے؟ بالکل نہیں، تو پھر کیسا انقلاب؟ شاید کچھ عرصہ بعد یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ انقلاب بھی عراق، سعودیہ، مصر اور کئی دفعہ پاکستان میں آچکا ہے، اور ایسے انقلاب لانا انکل سام کے لیے بہت پرانا تجربہ ہے۔ یہ پیغام ہوتا ہے تیسری دنیا کے عوامی سیاست دانوں کے لیے کہ بہتر ہے ہماری تابع داری کرو، ہمارے مفادات پورے کرو، وگرنہ انقلابی ہماری ایک انگلی کے اشارے پر ہیں۔ پھر آپ کی بچت نہیں۔ بہ قول ہمارے پی ٹی آئی کے ایک دوست کے کہ انقلاب وڑ جائے۔اور اب یہ کام شروع ہوچکا ہے۔ کیوں کہ عوامی لیگ کے کارکن بھی اب باہر نکل آئے ہیں اور اﷲ نہ کرے، لیکن خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش میں انارکی اور سول وار شروع ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ یہاں انقلاب نہیں آیا، بل کہ فساد ہوا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔