اگرچہ ایوب خان کی مزاحمت کے دوران دوسرے صوبوں میں بھی مزاحمت ہوئی، لیکن بلوچستان میں مزاحمت نے مسلح شکل اختیار کرلی۔ کیوں کہ بلوچ فوج سے جنگ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے یہ پہاڑوں پر چلے گئے اور وہاں سے اپنی مزاحمت جاری رکھی۔ پاکستان حکومت نے روزی خان جو اس مزاحمت کے سربراہ تھے، ان سے اور ان کی ساتھیوں سے صلح کی اور کہا جاتا ہے کہ بلوچوں کو یقین دلانے کے لیے قرآن شریف پر حلف اٹھایا گیا، لیکن جب روزی خان اور اس کے ساتھی پہاڑوں سے اترے، تو معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ روزی خان کو حیدر آباد جیل میں رکھا گیا جب کہ اس کے بیٹوں کو سکھر جیل میں ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور روزی خان کے بیٹوں کو پھانسی دی گئی۔
یہاں پر ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ جب ریاست کی جانب سے لوگوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور اس جرم میں پھانسی دی جاتی ہے، تو اس عمل سے مزاحمت کی تحریک ختم نہیں ہوتی بلکہ اسے پھانسی پانے والے شہید اور ہیرو مل جاتے ہیں، جو لوگوں میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی ریاست، پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کے مخالف سیاست دانوں کو برابر غدار قرار دیتی رہی جیسے خان عبدالغفار خان (باچا خان)، جی ایم سید اور آگے چل کر شیخ مجیب الرحمان بھی۔ روزی خان کو 85 سال کی عمر میں پھانسی دی گئی، بلوچوں کی تاریخ میں یہ وہ زخم ہیں، جو اب تک ہرے ہیں اور جن کا درد وہ اب تک محسوس کرتے ہیں۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 47 سے انتخاب)