مسلح افواج کا ایک نائب صوبیدار ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں آیا، تو ملاقات کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ایک دوست نے دریافت کیا، تمہاری کتنی پنشن طے ہوئی؟ تو اس نے بڑے فخر سے کہا، بارہ روپے ماہوار! یہ سن کر اس کا دوست ہکا بکا رہ گیا اور کہنے لگا کہ یار! اتنی بڑی رقم کا کیا کروگے؟ اب تو تم عیش کرو گے عیش۔
فی زمانہ یہ بات شاید افسانہ معلوم ہو، لیکن یہ حقیقت ہے۔ کیوں کہ یہ اس زمانے کی باتیں جب روپے کی قدر مستحکم تھی اور آج کی طرح اتنی شدید مہنگائی بھی نہ تھی۔ لہٰذا تنخواہ دار ملازم اور پنشنر خوشحالی اور مطمئن تھا اور معاشرے میں اسے پذیرائی بھی حاصل تھی۔ زمانے کا پہیہ حالات کے تحت گھومتا رہا۔ روپے کی قدر بتدریج گھٹتی رہی۔ نتیجے میں افراطِ زر اور مہنگائی کا طوفان آیا، جس سے تنخواہ دار ملازم اور خصوصاً پنشنرز بری طرح متاثر ہوتے رہے۔ ظاہر ہے کہ آج مہنگائی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے طوفان میں ایک غریب پنشنر قلیل پنشن میں نہایت مشکل سے ’’قوت لا یموت‘‘ کرتا ہے۔ اگرچہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پنشنوں میں بھی اضافہ کرتی ہے، لیکن یہ اضافہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں گھنٹوں کے حساب سے بڑھتے ہوئے اضافہ کے مقابلہ میں بے اثر ہوکررہ جاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بزرگ پنشنرز کے مسائل، ضروریات اور مطالبات کا حقیقی ادراک کرکے ان کو فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

بزرگ پنشنرز بڑی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہے ہیں۔ (Photo: The Express Tribune)

بزرگ پنشنرز وہ سابقہ ملازمین ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیوں کا سنہری دور یعنی جوانی قوم و ملک کی خدمت میں گزارا ہوتا ہے۔ یہ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ بیمار، کمزور اور محتاج ہوتے رہتے ہیں۔ جب حکومت حاضرِ سروس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ بیمار، کمزور اور محتاج ہوتے رہتے ہیں۔ جب حکومت حاضرِ سروس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے، تو اس کے ساتھ پنشنوں میں اضافہ کرتی ہے، جو نسبتاً نہایت قلیل ہوتی ہے، جیسا کہ اونٹ کے منھ میں زیرہ۔ پنشنرز کو پنشن میں جو میڈیکل الاؤنس ملتا ہے بہت کم ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں انسان کی قوتِ مد افت کمزور ہوتی ہے اور یہ لوگ عموماً اس عمر میں مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا بزرگ پنشنروں کو معقول میڈیکل الاؤنس وقت کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی اکثریت کرایہ کے مکانات میں رہتی ہے، تو بڑھتے ہوئے کرایوں کے پیشِ نظر ان کو مکان الاؤنس بھی دیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی سالانہ ترقی کی طرح پنشنرز کو بھی ہر تین سال بعد یعنی سہ سالہ ترقی دی جائے۔ ان کے علاج معالجہ کا سرکاری ہسپتالوں میں آسان اور فری بندوبست بھی وقت کا تقاضا ہے۔ بوقت ضرورت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور بیت المال سے ان کی مالی امداد بھی کی جائے۔ بزرگ پنشنرز کو ان کے مسائل کے حل کے سلسلے میں جلسوں جلوس اور احتجاجوں پر مجبور کرنا مناسب بات نہیں۔ کیوں کہ جو اقوام اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی اور ان کی داد رسی اور حوصلہ افزائی کرتی ہیں، یقینا ترقی اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔