ترجمہ: پروفیسر محمد بشیر
(نوٹ:۔ رسل کا خیال تھا کہ وہ 90 سال کی عمر میں دنیا چھوڑ جائے گا اور اس کا یہ مضمون "Obituary” یکم جون 1962ء کے اخبار "The Times” میں چھپے گا، یا شاید نہ چھپے گا۔ وہ 1970ء میں 98 سال کی عمر میں چل بسا، راقم)
تیسرے لارڈ رسل (یا برٹرینڈرسل "Bertrand Russell” جیسا وہ خود کو کہلانا پسند کرتا) کی 90 سال کی عمر میں موت کے ساتھ ہی ماضیِ بعید سے ایک رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کے دادا لارڈ جان رسل، جو ملکۂ وکٹوریہ کا وزیرِ اعظم تھا، نے الب میں نپولین سے ملاقات کی۔ اس نے اپنی جوانی میں ریاضیاتی منطق میں بڑی اہمیت کا کام کیا…… لیکن پہلی جنگِ عظیم میں اس کے عجیب و غریب رویے سے یہ منکشف ہوا کہ اس میں متوازن سوچ سمجھ کی کمی تھی اور اسی روہے سے اس نے بعد کی کتابوں میں متعدی مرض پھیلایا۔ شاید جزوی طور پر اسے اس حقیقت سے منسوب کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی پبلک اسکول میں تعلیم پانے سے مستفید نہ ہوا۔ اس نے 18سال کی عمر تک گھر میں ہی ٹیوٹروں سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کیمبرج کے ٹرنٹی کالج میں داخل ہوگیا۔ وہاں وہ 1893ء میں ساتواں حجتی (Wrangler) اور 1895ء میں فیلو بن گیا۔ بعد کے 15 سالوں میں اس نے وہ کتابیں لکھیں جن کی بنا پر اہلِ علم کی دنیا میں اس کی شہرت قایم ہوئی۔ وہ کتابیں یہ ہیں؛ جیومیٹری کی اساسات (The Foundation of Geometry)، لائبنز کا فلسفہ (The Philosophy of Leibeniz)، علم ریاضی کے اصول (The Principles of Mathematics) اور ڈاکٹر اے این وائٹ ہیڈ کی شرکت کے ساتھ پرنسپیا میتھیمیٹکا (Principia Mathematica) آخری کتاب، جو اپنے وقت میں بڑی اہمیت کی تھی، کی برتری بلاشبہ پروفیسر ڈاکٹر وائٹ ہیڈ کی مرہون منت تھی۔
ڈاکٹر وائٹ ہیڈ، جیسا کہ اس کی بعد کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے، اس بصیرت اور روحانی گہرائی کا حامل تھا جس کا رسل میں بہت فقدان تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسل اپنی ذہانت و زکاوت کے باوجود ان اعلا فضایل کو نظر انداز کردیتا ہے جو محض منطق سے ماورا ہوتی ہیں۔
اس میں روحانی گہرائی کا فقدان تکلیف دہ حد تک پہلی جنگِ عظیم کے دوران میں سامنے آیا…… جب رسل نے (اس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ) اس زیادتی کو کبھی کم نہ کیا جو بلجیم کے ساتھ ہوئی…… بلکہ کج روی کے ساتھ یہ بات کہی کہ جنگ ایک بدی ہے اور تدبر کا تقاضا یہ ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے اسے ختم کیا جائے۔ ایسا صرف برطانیہ کی غیر جانب داری اور جرمنی کی فتح سے ہوتا۔
یہ فرض کر لینا چاہیے کہ ریاضیات کے مطالعہ نے اسے صرف ’’مقداری نظریہ‘‘ سے روشناس کرایا جس نے متعلقہ اصول سے اسے منحرف کردیا۔ پوری جنگ کے دوران میں وہ یہ مطالبہ کرتا رہا کہ جن شرایط پر بھی ہو جنگ کو ختم کردینا چاہیے۔ ٹرنٹی کالج نے نہایت مناسب قدم اٹھاتے ہوئے اسے لیکچرار کے عہدے سے فارغ کردیا۔ 1918ء میں چند مہینوں کے لیے اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔
1920ء میں وہ روس گیا، لیکن وہاں کی حکومت کے حق میں متاثر نہ ہوا۔ چین میں اس کا دورہ زیادہ طویل رہا۔ وہاں کی روایتی تہذیب کی عقل پرستی سے وہ لطف اندوز ہوا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ 18ویں صدی کا رنگ ابھی تک باقی ہے۔ بعد کے سالوں میں اس نے سوشلزم، تعلیمی اصلاحات اور شادی سے متعلق کم سخت اخلاقی قوانین کی حمایت میں اپنی قوتیں ضایع کردیں۔ تاہم بعض اوقات اس نے مسایلِ حاضرہ کے متعلق لکھا۔ اس کی تاریخی تحریروں نے اپنے اُسلوب اور طنز کے باعث بے دھیان قاری سے قدیم عقل پرستی کی سطحیت کو چھپائے رکھا۔ اس نے اسی عقل پرستی کی حمایت آخری دم تک جاری رکھی۔
دوسری جنگِ عظیم کے متعلق اس نے کچھ نہ کہا۔ کیوں کہ اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی وہ ایک غیر جانب دار ملک کی طرف فرار ہوگیا۔ نجی گفتگو میں وہ کہا کرتا تھا کہ انسانی قتل کرنے والے پاگل ایک دوسرے کو جان سے مارنے میں خوب مصروف ہیں، لیکن سمجھ دار لوگ ایسے کام کرنے والے لوگوں سے الگ ہی رہیں گے۔ خوش قسمتی سے ایسا نقطۂ نظر، جو بینتھی کی یاد دلاتا ہے، آج کے زمانے میں بہت کم ہے۔ اس تقطۂ نظر کے مطابق عظمت وہ قدر ہے جو اِفادیت سے بالاتر ہے۔ بلاشبہ دنیا کا بہت بڑا حصہ، جو کبھی مہذب دنیا کہلاتا تھا، آج کھنڈرات میں بدل گیا ہے…… لیکن صحیح سوچنے والا کوئی انسان تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس بڑی جد و جہد میں جو حق کے لیے مرے ہیں، انہوں نے بے فایدہ جان دی ہے۔ اس کی زندگی میں اپنی سرکشی کے باعث اختلافانہ استواری قایم رہی۔ یہ بات انیسویں صدی کے اوایل کے اشرافی باغیوں کی یاد دلاتی ہے۔ اس کے اصول عجیب تھے…… لیکن وہ جیسے بھی تھے، وہ اس کے اعمال پر غالب رہے۔ اپنی نجی زندگی میں اس نے ایسی کسی تیزی و تندی کا اظہار نہ کیا جس نے اس کی تحریروں کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ وہ ایک خوش طبع اور خوش کلام تھا اور انسانی ہم دردی سے عاری نہ تھا۔ اس کے بہت دوست تھے…… لیکن اس نے ان سے زیادہ لمبی عمر پائی۔ اس کے باوجود جو باقی زندہ رہے، انہیں وہ اپنے انتہائی بڑھاپے میں بھی بہت مسرور دکھائی دیتا۔ ایسا بلاشبہ اس کی مستقل اچھی صحت کے باعث تھا…… لیکن اپنے آخری سالوں میں وہ اس طرح تنہا تھا جیسے کہ ملٹن بادشاہ کی بحالی کے بعد رہا۔ وہ ایک مردہ عہد کی آخری نشانی تھا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔