ڈاکٹر افتخار بخاری کتنے خوش قسمت ہیں کہ مَیں نے اُن کا نام ’’بخاری شریف‘‘ رکھ دیا ہے۔ نام، کام سے بنتا ہے اور اُن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غلام حسین غازی کی پہلی کتاب ’’راجہ گدھ کا تنقیدی جائزہ‘‘ پرنٹ کروانے میں ’’خاموش مجاہد‘‘ جیسا کردار ادا کیا۔ اس بات پر وہ یقینا داد کے مستحق ہیں۔ کتاب آنے سے پہلے انہوں نے جان پر کھیلتے ہوئے اس کتاب کے "Synopsis” پر مشتمل مضمون بھی ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ (امجد طفیل؍ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا گروپ) میں پڑھوا دیا۔ حلقے میں باقاعدگی سے بکواس شریف کرنے والے ٹولے کو چپ کروانے کے لیے خود بخاری شریف کو غلام حسین غازی کا تعارف ’’سابقہ فوجی‘‘ کی حیثیت سے کروانا پڑا۔ فوج کے نام پر تو بڑے بڑے چپ کر جاتے ہیں، سو یہ حلقہ بھی باجماعت خاموش ہوگیا۔ سوشل حلقوں کا اس طرح کا اتفاق و اشتراک چلتا رہتا ہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق والوں کو نہیں پتا تھا کہ بات صرف مضمون تک ہی نہیں رہے گی بلکہ کتاب جیسا بمبو کارٹ بھی بعد ازاں تیار ہوگا اور ’’محبانِ راجہ گدھ‘‘ کے لیے مستقل دردِ سر بنے گا۔ انسانی نفسیات بھی عجیب ہے، اگر ’’چوڑیاں‘‘ فلم میں نرگس کہے’’مَیں مر گئی آں میں ٹھر گئی آں‘‘ تو سب کو اُس سے ہمدردی ہو جاتی ہے اور اگر معمر ر انا گائے ’’میں مر گیا واں میں ٹھر گیا واں‘‘ تو اکثریت کہے گی کل کا مرتا آج ہی مر۔ غلام حسین غازی کے مدلل دلائل اور وسیع تر مطالعہ کے باوجود اکثریت کی ہمدردیاں بانو قدسیہ ہی کے ساتھ رہیں گی۔ کیوں کہ سچ اتنی جلدی ہضم نہیں ہوتا۔ وہ پروفیسر حضرات بھی اپنا سا منھ لے کر کہاں جائیں گے جو راجہ گدھ کو شاملِ نصاب ہونے کے باعث آنکھیں بند کرکے نہ صرف پڑھاتے رہے بلکہ اس پر ’’تھیسس‘‘ ٹائپ چیزیں بھی کرواتے رہے۔ ایک بڑا بت ٹوٹنے سے اُس کے اَن گنت پجاری بھی مارے جاتے ہیں۔ بت تو چپ سادھ لیتا ہے، مگر پجاری بہت آہ و بکا کرتے ہیں۔
بخاری شریف نے غلام حسین غازی کا اس حد تک جاتے ہوئے ساتھ دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کا جواب سادہ ہے نہ سادہ لوگوں کو سمجھ میں آنے والا ہی ہے۔ درویشوں اور صوفیوں کے معاملات ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ صوفیا اور درویشوں کی مخصوص نشستوں اور گدیوں پر ہمیں ڈاکٹر افتخار بخاری اور میاں یوسف ملاح الدین اور بین المعروف میاں صلّی (جنہیں نواسۂ رسولؐ کے وزن پر نواسۂ اقبال کہہ کہ بھی عزت دی جاتی ہے) جیسے بناسپتی صوفی جن کی جذب و مستی بھی مصنوعی یعنی کڑوے پانی کی محتاج ہے، قبضہ کیے نظر آتے ہیں، تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اب غلام حسین غازی جیسے سچے اور سُچل درویش اور صوفی کہاں جائیں گے اور اُن کا ٹھور ٹھکانا کیا ہوگا؟
ان صوفیانہ اور درویشانہ معاملات میں اگر "GIVE AND TAKE” والا عنصر میں یا کوئی اور بھی دریافت کرلے،تو پھر تصوف، درویشی، فلسفہ اور سائنس سبھی کچھ ڈگمگانے لگتے ہیں۔ اس بات کا بطلان نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی اپنی جگہ پر بندہ ہی غرض کا بندہ ہے۔ کیا عرفان کیا بخاری مگر ایک محاورہ ہے: ’’چھری تلے سانس لینا‘‘ بخاری شریف نے غلام حسین غازی کو چھری تلے سانس نہیں لینے دیا۔ یہی اُن کے پروفیشنل صحافی اور کاریگر صوفی ہونے کی دلیل ہے اور دلیل کے بغیر بات کرنا ویسے بھی مجھے پسند نہیں۔
بخاری شریف نے اپنی کتاب ’’آگہی سے آگے‘‘ کا ترجمہ "BEYOND THE ENLIGHTENMENT” کے نام سے غلام حسین غازی سے کھڑے کھلوتے کروایا۔ اُن کی کتاب اور غلام حسین غازی کی کتاب ’’راجہ گدھ کا تنقیدی جائزہ‘‘ ایک ساتھ ’’بُک ہوم‘‘ کے شو روم کی زینت بنیں۔ ایک پیزا کے ساتھ دوسرا پیزا ’’فری‘‘ والا معاملہ ہوگیا ناں؟
خیر، کتاب شائع ہونا بڑی اچھی بات ہے، چاہے کسی کی بھی ہو۔ بخاری شریف نے ’’بُک ہوم‘‘ کا راستہ دکھایا بھی تو کس کو؟ غلام حسین غازی کو، جن کی ظاہری اور باطنی بینائی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے۔
اس حوالے سے ایک لطیفہ ہے کہ کسی بڑھیا نے سکول کے ہیڈ ماسٹر سے آکر اُس کے سکول کے بچوں کی شکایت لگائی کہ وہ اُسے زبردستی درجنوں بار سڑک پار کروا چکے ہیں، ثواب کمانے کے چکر میں۔
دروازے پر کھڑے کھڑے بہت باتیں ہو چکیں۔ اب ہم ر اجہ گدھ کی خبر لیتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہے اور کتنے پانی میں ہے؟
راجہ گدھ کا معاملہ ابتدا ہی سے مشکوک سمجھا جاتا تھا اور اس پر بات کرنے والے کو شی "SHE” کہہ کر چپ کروا دیا جاتا تھا۔ چپ کروانے والوں کی قیادت اشفاق نقوی مرحوم کیا کرتے تھے جو روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں لاہور کے حوالے سے کالم لکھا کرتے تھے اور ماڈل ٹاؤن کی نسبت سے ’’داستان سرائے‘‘ والوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ وہ شاہد بخاری کو بھی ’’داستان سرائے‘‘ کے حوالے سے خاصی نصیحتیں اور وصیتیں کرگئے تھے۔ پتا نہیں اُن کا کیا بنا؟
میں نے اپنے ناول ’’آشنا‘‘ کی ’’ہاٹ لائن‘‘ (پہلا ایڈیشن جنوری 2000ء) میں صفحہ نمبر 9پر لکھا تھا: ’’ناول‘‘ ’’آشنا‘‘ پر ریحانہ بوستان کا نام دینا وہ ادبی انصاف تھا جو مجھے ہر صور ت کرنا تھا۔ کیوں کہ ’’راجہ گدھ‘‘ پر صرف بانو قدسیہ کا نام مجھے بار بار اُن سے یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ ناول پر اپنے نام کے ساتھ اشفاق احمد صاحب کا نام نہ دینے میں کیا مصالحت تھی؟ یا ایسا کرنے میں ہرج ہی کیا تھا؟ ممکن ہے میرے اس سوال کا جواب بطورِ وفا شعاربیوی کے نہ دیتیں، مگر نام دینے کی صورت میں رائلٹی تو گھر ہی میں رہی تھی۔ کیوں کہ ر اجہ گدھ کا مردانہ پن اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتاہے کہ یہ ناول محترمہ بانو قدسیہ صاحبہ نے جناب اشفاق احمد صاحب کی ڈکیشن پر رکھا ہے۔ اور خاوند سے ڈکیشن لینا، اسحاق خان سے ڈکیشن لینے جتنی بڑی برائی نہیں۔ ’’راجہ گدھ‘‘ پر نام نہ آنے کی صورت میں اشفاق احمد صاحب بہت بڑے کریڈٹ سے محروم رہے ہیں…… جس کا مجھے ذاتی طور پر بہت افسوس ہے۔ اُن کے کریڈٹ پر فکشن میں ’’سفر در سر‘‘ جیسی بڑی کتاب کے علاوہ باقی سب ٹی وی ڈراموں کی کتابیں ہیں اور ٹی وی ڈرامے (مطبوعہ شکل نہیں) وہ لسی ہیں جن سے مکھن نکال لیا گیا ہو۔ مَیں آج بھی اپنی اس بات پر پُرزور اصرار کروں گا کہ ’’راجہ گدھ‘‘ پر محترمہ بانو قدسیہ کے ساتھ ساتھ جناب اشفاق احمد صاحب کا نام بھی دیا جائے۔ کیوں کہ نامور نقاد جناب آغا سہیل صاحب بھی ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کی رونمائی میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کا فلسفہ اشفاق احمد کا فلسفہ ہے اور میری نظر میں اگر ’’راجہ گدھ‘‘ سے فلسفہ نکال دیا جائے، تو ناول نہصرف آدھا رہ جاتا ہے بلکہ اس کا نام بھی ’’راجہ گدھ‘‘ سے ’’راجا گدھا‘‘ رکھنے کا شدید امکان پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
اب اگر غلام حسین غازی صاحب نے ’’راجہ گدھ‘‘ والا پنڈورا بکس کھو ل ہی دیا ہے، تو نئے پرانے نقادوں، پروفیسروں اور طالب علموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ دولے شاہ کے چوہے نہ بنیں۔ اکرام اللہ کا ’’گرگ شب‘‘ (1978ء) بھی پڑھیں اور بانو قدسیہ کا ’’راجہ گدھ‘‘ (1981ء) بھی۔ دونوں کا پبلشر بھی اتفاق سے ایک ہی ہے یعنی ’’سنگِ میل، لاہور‘‘ دونوں کا تقابلی مطالعہ اُن پر واضح کر دے گا کہ خالص دہی کی لسی بناتے وقت خوب پانی ڈالنا کیوں ضروری ہوتا ہے۔
ہر من ہیسے کے ناول ’’سدھارتا‘‘ کے ساتھ یہی کام قرۃ العین حیدر نے بھی ’’آگ کا دریا‘‘ کے نام سے کیا تھا۔
فکشن بڑی عجیب و غریب چیز ہے اور اس میں ’’ناولٹ‘‘ نامی ایک ایسی صنف بھی موجود ہے جو عجیب خاصیت کی حامل ہے۔ ناولٹ کو کوئی ماہر قلم کار بڑھا کر ناول بھی بنا سکتا ہے اور ناول کا ناولٹ بھی بنا سکتا ہے۔ شرط بندے کے کاریگر اور کھلاڑی ہونے کی ہے۔ اناڑی یا کچا پن ایسی کسی کوشش کو ناکامی سے ہمکنار بھی کر سکتا ہے، ایک آنچ کی کسر رہ جانے پر۔
غلام حسین غازی صاحب کی چوں کہ یہ پہلی کتاب ہے، اس لیے اُنہوں نے ایک محتاط بیٹسمین کی طرح اپنا کھیل کھیلا ہے اور خطرناک سٹروکس لگانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بھی اُن کا اپنا انداز اور اُسلوب ہے۔ کتاب کے صفحہ 13 پر انہوں نے لاہور کے جس دوست کا نام لے کر ذکر نہیں کیا، وہ مَیں ہی تھا۔ صفحہ 14 پر اُن کو 30 کتابیں پہنچانے والا بھی اتفاق سے مَیں ہی تھا۔ بخاری شریف کی انٹری اس کتابی ڈرامے میں ابھی تک نہیں ہوئی تھی اور مَیں یہ خدمات سرانجام دے کر مری جا چکا تھا یعنی ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ والا معاملہ ہوچکا تھا۔
صفحہ نمبر 33 پر ایک حوالہ دیا گیا ہے کہ گوروں میں نسلی حوالہ جات نہیں چلتے۔ یہ درست ہے کہ وہ ذات پات اور مذہب کے چکر سے خاصی حد تک نکل چکے ہیں مگر پھر بھی ہمیں اُن کے ہاں گولڈ سمتھ (سنار) بلیک سمتھ (لوہار) کارٹر (رہڑی والا) او رفوسٹر (دودھ شریک) جیسے نام تو مل ہی جاتے ہیں۔
غازی صاحب نے اپنی کتاب میں جو سوال اُٹھائے ہیں، وہ آگے مزید سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ والد کے نام کے بغیر بانو قدسیہ کا شناختی کارڈ کیسے بن گیا؟ یہ ہمیں اب نادرا سے پوچھنا ہو گا یا پھر جی سی یونیورسٹی میں اُن کا داخلہ فارم دیکھنا ہوگا جب اُن کے ساتھ اشفاق احمد خان جیسا "Shouting” انجن نہیں لگا تھا یا پھر اُن کا نکاح نامہ بھی ولدیت والا مسئلہ حل کرسکتا ہے۔ بانو قدسیہ کی فرماں بردار اولاد بھی ذرا سی گستاخی دکھاتے ہوئے اپنے نانا ابو کا نام پوچھنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ ویسے بھی جمہوری دور ہے ناجے لوہار کا جنہیں کچھ لوگ "Saudia Return King” بھی کہتے ہیں۔
اس کتاب کا بیک کور لکھنے والے کا نام ’’گل سلطان اعوان‘‘ دیا گیا ہے (جو تاحال مفرور ہے اور ڈاکٹر افتخار بخاری ہی کا فرضی قلمی نام ہے، ورنہ ایک پراپرٹی ڈیلر کا ادب کے ساتھ کیا واسطہ؟ وہ تو سیمنٹ، لوہے اور بجری کی باتیں کرتے ہی اچھا لگتا ہے) جسے اس کتاب پر آنے والی فیڈ بیک (یعنی عوامی اکثریت) مشکوک قرار دے چکی ہے۔ یہ ڈاکٹر افتخار بخاری ہی کا قلمی نام اس لیے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گل سلطان اعوان کو اپنے اکلوتے دیباچے کے منھ سے اگر کسی کی تعریف کرنا یاد رہا، تو وہ ڈاکٹر افتخار بخاری ہی نکلے۔ کیوں کہ دونوں ہم زاد یا ایک ہی علاقے کے سنگی تھے اور ساتھ ہی ساتھ وٹوانی اور گھیسیاں کیا کرتے تھے۔ اس سے کہیں بہتر ’’دیبابچہ‘‘ تو رانا عبدالرحمان اور ایم سرور مل ملا کر لکھ سکتے تھے۔ ڈاکٹر افتخار بخاری کو اپنے علاوہ کسی پر اعتبار ہی نہیں تھا۔ اُن کا معاملہ بھی اداکار کیفی جیسا نکلا جن سے انٹرویو میں اُن کا پسندیدہ گلوکار پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: بھائی جان (عنایت حسین بھٹی) اداکار؟ پوچھا، تو پھر بھائی جان۔ آئیڈیل؟ پوچھا، تو پھر بھائی جان۔ انٹرویو کرنے والا بھائی جان، بھائی جان کی تکرار سے بھاگ گیا۔ ڈاکٹر افتخار بخاری نے بھی ’’بھائی جان‘‘، ’’بھائی جان ‘‘ کہا کسی اور سے نہیں ایم کیو ایم والے بھائی جان سے سیکھا ہے۔
بانو قدسیہ اور غلام حسین غازی نے پاگل پن کی قسموں اور پاگل پن کی عظمت کے حوالے سے بھی باتیں کی ہیں جب کہ مَیں تو پاگل صرف اور صرف اُسے ہی مانتا ہوں جسے نوٹ دکھایا جائے، تو وہ اُس کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر مستقل درویشی اور صوفیانہ قبضہ جمائے رکھنے کے باوجود اشفاق احمد کی پبلسٹی یا توجہ حاصل کرنے کی خواہش ماند نہیں پڑی تھی بلکہ کبھی کبھی تو فروزاں ہو جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے ادبی پرچے ’’داستان گو‘‘ کو چھاپنے کی خاطر کریڈل پریس بھی خریدا اور پھر اس کی پبلسٹی فلمی انداز میں کچھ اس طرح سے کی گئی کہ اُس کے اشتہار (پرچیاں) والٹن ایئرپورٹ پر دستیاب جہاز سے پورے لاہور شہر میں برسائی گئی تھیں جنہیں محیط اسماعیل جیسے اَدب نواز بچے بخوشی لوٹتے رہے تھے۔
اشفاق صاحب نے بہ طورِ مصنف و ہدایتکار ایک فلم ’’دھوپ چھاؤں‘‘ بھی بنائی تھی جس میں 75 فی صد ٹائم تک کیمرہ اُن کے رُخِ روشن سے ہٹایا نہیں گیا۔ نتیجہ؟ فلم ایک دن سے زیادہ سنیما میں زیرِ نمائش نہ رہ سکی۔ ظاہر ہے یہ فلم صرف بانو قدسیہ ہی نے تو نہیں دیکھنی تھی ناں! فلم بجلی کا خرچا بھی پورا نہ کر پائی۔ بعد میں اشفاق احمد نے یہی فلم پی ٹی وی کو منڈھ کر اپنا خسارہ پورا کر لیا۔ ریڈیو اور ٹی وی تو جاگیر ہی تھے اشفاق احمد کی۔ وہاں سے اے ٹی ایم کی طرح نوٹ نکلوانا وہی جانتے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی افتخار احمد خان المعروف ’’ڈیڈی‘‘ اُن کی ایسی حرکتیں اپنے دوستوں کی منڈلی میں -1 فین روڈ پر سنایا کرتے تھے۔ مزدور رائٹر قمر یورش بھی ایسی باتوں کا ذکر اپنی تحریروں میں کر چکے ہیں۔
ایک عرصے تک فلم ’’دھوپ چھاؤں‘‘ رات دن ’’داستان سرائے‘‘ کے مہمانوں کو زبردستی دکھائی جاتی رہی۔ اظہر جاوید مدیر ’’تخلیق‘‘ اس فلم سے سخت الرجک تھے۔ منھ پھٹ تھے، صاف کہتے تھے: ’’مَیں تو بانو قدسیہ کو دیکھنے جاتا ہوں۔ دھوپ چھاؤں دیکھنے نہیں۔‘‘
’’راجہ گدھ‘‘ کا خالی خولی مصنوعی فلسفہ اُس کھوکھلی ہڈی جیسا ہے جسے چور رکھوالی کرنے والے کتے کو مصروف کرنے کے لیے ڈالتے ہیں اور خود مزے سے چوری کرتے ہیں۔ ’’راجہ گدھ‘‘ نامی ہڈی ضیاء الحق سے توجہ ہٹانے کے لیے عوام کے سامنے ڈالی گئی تھی، تاکہ ضیاء الحق مزے سے عوامی حقوق پر ڈاکے مارتا رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں تو توبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ سمری ملٹری کورٹس تھیں اور کوڑے تھے جو صرف پیپلز پارٹی یا پھر لفٹ والوں کو لگتے تھے او رتماشائی جماعتیے تھے۔
صفحہ نمبر 83 پر بانو قدسیہ کا تخلیقی لحاظ سے اپنی ’’زنانہ کمزوری‘‘ کا اعتراف موجود ہے مگر انہی ’’ایام‘‘ میں وہ صرف 55 دن میں ’’راجہ گدھ‘‘ بھی لکھ لیتی ہیں۔ لگتا ہے سنتیں انہوں نے پڑھیں اور فرض؍ وتر اشفاق احمد نے ادا کیے۔ یوں اس فرض کی خوش اسلوبی سے تکمیل ہوئی۔ 52 سال کی عمر وہ عمر ہے جس میں دنیا بھر میں خواتین کی اکثریت Manupause کا شکار ہو جاتی ہیں یعنی ماہواری اور بچہ جننے سے مکمل طور پر فراغت یا پھر اللہ کو پیاری ہو جاتی ہیں۔
صفحہ نمبر 93 میں لاش کی بے حرمتی کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ وزیر آباد نہیں حافظ آباد میں پیش آیا تھا جو نام سے اسلامی اسلامی سا شہر ہے اور دور بھی اسلامی ہی تھا یعنی ضیاء الحق کا۔
صفحہ نمبر 105 ’’راجہ گدھ‘‘ صفحہ 89 ’’سیمی کے جسم کو چھونا میرے لیے ہجراسود کو چھونے سے کم نہ تھا۔‘‘ بڑی نامناسب اور اسلامی جذبات بھڑکانے والی مثال ہے یا تو سیمی بھی بلیک بیوٹی ہوتی اور آبنوسی رنگت اور جسم کی حامل ہوتی، تو بات نبھ بھی سکتی تھی۔
گورے رنگ کا کمپلیکس بانو قدسیہ کو ساری عمر رہا۔ اشفاق احمد کے بڑے بھائی افتخار احمد خان (ڈیڈی) – 1مزنگ روڈ پر فیسرین کریم بناتے اور فروخت کرتے تھے۔ یہ کریم اپنے زمانے میں "Fair and Lovely” کی طرح مشہو رتھی۔ اشفاق احمد خان بھی اُن کی عدم موجودگی میں ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک ڈیوٹی والے دن بانو قدسیہ فیسرین کریم لینے آئیں۔ اشفاق احمد (جو اُن کے ساتھی طالب علم تھے) کو وہاں بیٹھا دیکھ کر وہ جھینپ گئیں او رواپس پلٹنا چاہا مگر اشفاق احمد باتوں کے ماہر تو تھے ہی، بانو قدسیہ کو بہلا پھسلا کر وہاں بٹھا ہی لیا۔ یوں دونوں کی بے تکلفی مزید بڑھ گئی۔
بانو قدسیہ میڈیا سے ملنے والی شہرت (چاہے وہ جیسے بھی ملے) پر یقین رکھتی ہیں اور ’’مختاراں مائی‘‘ پر رشک کرتی ہیں جس نے اجتماعی زیادتی کے نتیجے میں صرف پاکستان تو کیا دنیا بھر میں شہرت پائی۔
صفحہ 126 پر پنجاب یونیورسٹی کے ریکارڈ توڑ وی سی ڈاکٹر مجاہد کامران کا نام ڈاکٹر کامران مجاہد لکھا گیا ہے اور اسی طرح صفحہ 127 پر جناب ڈاکٹر آغا سہیل صاحب کو پرنسپل جی سی کہا گیا ہے جب کہ وہ صدرِ شعبۂ اُردو ایف سی کالج تھے۔ یاد رہے ایف سی اور جی سی کا آپس میں اینٹ کتے والا بیر رہا ہے۔ کیوں کہ پہلے ایف سی نیلا گنبد انار کلی ہی میں ہوا کرتا تھا، پھر سرکتے سرکتے نہر پار چلا گیا۔
غلام حسین غازی صاحب کی یہ کتاب پوری قوم کو تو نہیں مگر اہلِ علم و دانش بالخصوص تعلیمی اداروں کی سطح پر خوابِ غفلت سے جگانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ تحقیق، تنقید میں بھی کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ یہ بھاگنے اور بھگانے والا سخت محنت طلب کام ہے۔ کتاب یہ بات بھی ثابت کرتی ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر ہونے والا تحقیقی و تنقیدی کام رسمی کام ہے۔ یہ صرف پروموشن یا انکریمنٹ کے لیے کیا اور کروایا جاتا ہے۔ طالب علموں کو تھری ڈی عینکیں پہنا کر تحقیق و تنقید کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور تھیسس تیار کیے جاتے ہیں۔ عینک اُتار دینے کے بعد اسکالر پھر سے پہلی والی حالت میں واپس آجاتا ہے۔ تھیسس یونیورسٹی لائبریری کے قبرستان میں آرام فرماتے ہیں۔ نگران کو تھیسس کروانے کا معاوضہ کئی صورتوں میں مل جاتا ہے۔ اسکالر ڈگری ملتے ہی زبردستی مسلط کی گئی تنقیدی، تحقیقی کتابوں سے پہلی فرصت میں جان چھڑاتا ہے اور باقی ساری زندگی اپنی ڈگری کی فیوض و برکات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ’’ڈی لٹ‘‘ یا ’’پوسٹ پی ایچ ڈی‘‘ کی طرف کوئی کوئی جاتا ہے۔ تھیسس کے علاوہ صاحب کتاب بھی کوئی کوئی اسکالر ہی ہوتا ہے۔ ٹاپک تھوپے اور ٹھونسے جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں ایم اے (انگلش) غلام حسین غازی کا یہ کتاب لکھنا، بڑے بڑے پروفیسرز کو عرقِ انفعال میں ڈبونے کے لیے بہت کافی ہے!
(یہ مضمون محترمہ بانو قدسیہ کی زندگی میں یکم جنوری 2017ء کو لکھا گیا اور 4 فروری 2017ء کو وہ اللہ پیاری ہو گئیں)
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔