کومبڑ سے نویکلے چوک تک سڑک کی لمبائی تقریباً 2 کلومیٹر ہے۔ اس کو سرکاری ریکارڈ میں کانڑہ بابا روڈ کہتے تھے، لیکن اس کے اور بھی عوامی نام تھے۔ جیسے: مری روڈ، ٹھنڈی سڑک۔ اس کے زیادہ تر لمبائی میں دونوں کناروں پر نہریں اور درخت ہوا کرتے تھے۔ آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ بعد میں شہزادہ امانِ روم کا محل نما مکان بنا، جو کئی سال سے ایس پی ایس کالج انتظامیہ کے پاس ہے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
نجی طور پر پہلا گھر 1962ء یا 63ء میں سیف الرحمان زرگر کا بنا۔ یہ اپنے وقت کا جدید اور خوب صورت مکان تھا۔ یہ مجھے اس لیے یاد ہے کہ موصوف نے یہ ٹھیکے پر دیا ہوا تھا۔ تو مَیں اور عبدالقیوم (مرحوم) نے والی صاحب کی اجازت سے اس کی پیمایش کرکے مالکِ مکان اور ٹھیکے دار کا حساب چکتا کیا تھا۔
نوے کلے اور تختہ بند روڈ کے سنگم پر ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ اس سے کچھ دور جاکر سرسبز کھیتوں کے بیچ امیر نواب دولت خیل کی جدید پکی آبادی والی پن چکیاں تھیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
توروالی موسیقی کا مقدمہ 
ڈاکٹر طارق سلیم مروت کی یاد میں 
محمد افضل خان لالا کی یاد میں 
علامہ نور الاسلام المعروف فلائنگ کوچ مولوی صیب 
سوات کے 1975ء کے ایک رقت انگیز مشاعرے کی روداد 
اب جو واقعہ میں عرض کررہا ہوں وہ 70ء کی دہائی کا وہ خوف ناک دور تھا، جب بھٹو صاحب جیل میں تھے اور قتل کے مقدمے کا سامنا کرہے تھے۔ مَیں نے ایک سکندر مارکہ شاٹ گن 140 روپیا میں خریدی تھی اور والی صاحب کا دیا ہوا پستول کا لائسنس ڈی سی صاحب سے چھریدار میں تبدیل کروایا تھا۔ اُن پن چکیوں کے قریب ہم نے دھان کی فصل میں ایک عجیب الخلقت پرندے کا شکار کیا،جو بہت بھاری اور بہت لمبی ٹانگوں والا سیاہ رنگ کا تھا۔ ایک معمر بابا نے جو اُدھر کھڑے تھے، بتایا کہ یہ پرندہ اُنھوں نے 25 سال بعد دیکھا اور اس کو ہم ’’تورہ ایلئی‘‘ کہتے ہیں۔
بہر حال مَیں نے وہ دیوہیکل پرندہ اخباروں میں لپیٹ کر بغل میں دباکے پکڑا، تو اس کی ٹانگیں زمیں پر گھسٹ رہی تھیں۔ گرین چوک تک آیا، تو احساس ہوا کہ سب میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک تو مارشل لا کا دور تھا، اُدھر گرین چوک میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کا احتجاجی مظاہرہ تھا۔ فضل رحمان نونو کی جذباتی نعرہ بازی لہو کو گرما رہی تھی اور پولیس کی بھاری نفری الگ کھڑی تھی۔
اتنے میں ایک پولیس والا میری طرف آیا۔ میرے کان میں چپکے سے کہا کہ دیکھو، تم جو کوئی بھی ہو، مگر ہو پرلے درجے کے احمق۔ اس سائڈ والی گلی سے نکلو اور خوڑ تک جاکر اسی کے کنارے کنارے چلتے جانا۔ مَیں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور اُسی طرح چھپ چھپا کر افسر آباد گیا۔
رات کو اُسی دیوہیکل پرندے (تورہ ایلئی) کو چاول کے ساتھ پکاکر تناول فرمایا، تو مزا آگیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔