کلام میں واقعات و واردات پر محض فکری اشارے دے کر آگے بڑھنا ایمائیت ہے، لیکن یہ اشارے اس قدر تخلیقی اور شعلہ پرداز ہوتے ہیں کہ تربیت یافتہ ذہن کا خرمنِ خیال بھڑک اٹھتا ہے۔ اس کے پردۂ شعور پر بیانِ واقعہ کا پورا نقشہ ابھر آتا ہے۔
دنیا کی عظیم شاعری میں ایمائیت اپنی پوری قوت کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اُردو کے شعری سرمائے میں غزل اپنی ایمائی خاصیت کی بنا پر ہمیشہ سے لائقِ توجہ اور مقبول ترین صنفِ شعر رہی ہے۔ جدید اردو نظم نگاروں نے بھی ایمائیت کی جلوہ سامانی سے کام لیا ہے۔
مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق غالبؔ کا ذیل میں دیا جانے والا شعر ملاحظہ ہو:
دے کے خط منھ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف "ادبی اصطلاحات” مطبوعہ "نیشنل بُک فاؤنڈیشن”، اشاعتِ چہارم، مارچ 2017ء، صفحہ نمبر 50 اور 51 سے انتخاب)