آمریت…… ایک پینڈولم

چائینیز فلسفی لاؤ سو (Lao Tzu) کی کتاب ٹاؤ ٹی چنگ کوئی خود بہتری (Self-improvement) یا روحانیت کا تجربہ دلوانے والی کتاب نہیں جسے سمجھ کر آپ اپنی ’’پروڈکٹیوٹی‘‘ اور جذباتی صحت کو درست کرسکتے ہیں، بلکہ یہ کتاب ایک فلسفی نے اپنے دور کے جابر کرپٹ آمر کے جبر کے جواب میں لکھی ہے۔ یہ کتاب آمر، حکم رانوں اور لیڈران کے لیے ہے کہ کیسے اور کس حکمتِ عملی سے کسی لیڈر کو حکومت کرنی چاہیے اور حکومت کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ چوں کہ لاؤ سو کے زمانے میں چائینیز آمر بہت جابر اور کرپٹ تھے۔ یہ کتاب آمروں کو بتاتی ہے کہ طاقت صرف سختی نہیں نرمی (Power of Softness)سے بھی قائم رکھی جاسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاؤ سو جابر حکم ران کو کہتا ہے کہ ’’پانی کی مانند بنو!‘‘
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
مَیں نے جو بھی تھوڑی بہت تاریخ پڑھی ہے، تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کچھ بھی نہیں بدلا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک چکر (Cycle) مکمل کرتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ فُلاں لیڈر کی وجہ سے انقلاب آیا لیکن دراصل یہ وقت ہی ہوتا ہے جو معاملات اور حالات کو بدلتا رہتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ، کوئی بھی انسان خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو…… ایک وقت آتا ہے جب مضبوط سے کم زور ہونے تک کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ دنیا میں بڑی اور طاقت ور حکومتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کئی سو سال تک چلنے والی ریاستیں ٹوٹ گئیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان اداروں/ حکومتوں کو پینڈولم کہتے ہیں جو اپنی موت آپ مرتی ہیں، یا پھر انھیں سپورٹر سے انرجی ملنا بند ہوجائے، تو یہ ماند پڑنے لگتے ہیں۔
مَیں عموماً سیاست پر تبصرہ نہیں کرتی۔ کیوں کہ مجھے اس کی حقیقت کی کوئی خبر نہیں۔ ہم صرف ان معاملات پر بہتر طور پر بول پاتے ہیں جن کی حقیقت ہم نے دیکھی ہو، جسے ہم نے تجربہ کیا ہو، جہاں ہماری موجودگی ہو…… لیکن تاریخ سے ہمیں اکثر شواہد ملتے ہیں کہ ماضی میں معاملات کیسے وقوع پذیر ہوئے اور پھر اس بنا پر ہم سب اپنے اندازے لگاتے رہتے ہیں۔ سب اندازے ہی لگاتے ہیں۔ شاید مشینوں کی حکومت آنے سے ہمارے اندازوں میں کچھ بہتری آجائے۔ البتہ انسانی دماغ بہت ہی بے کار قسم کے اندازے لگاتا ہے، انتہائی جانب دار…… جس کا نقصان ہم صدیوں سے بھگت رہے ہیں۔
آمروں کی حکومت ہمیشہ سے ناپسندیدہ رہی ہے۔ اس نظام کے خلاف ہمیشہ آواز اُٹھی اور اُٹھتی رہے گی (لیکن حکومت ہر قسم کی خواہ جمہوریت ہو یا آمریت…… اس کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں۔) ہمارے ملک میں بھی اس کے خلاف باتیں ہوتی رہیں گی، لیکن عموماً یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک بار کسی ملک کے نظام میں آمریت کے بیج بو دیے جائیں، تو پھر اس کو جڑ سے اُکھاڑنا مشکل ہوتا ہے (سوائے جرمنی کے کوئی بھی اس کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکا اور اس کی وجہ مالی ترقی ہے شاید، کیوں کہ جہاں خوش حالی ہو، وہاں آمریت کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔) شاید آپ اور مَیں وقت کے اس چکر کو مکمل ہوتا نہ دیکھ سکیں، لیکن آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گی (لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ دور سنہرا ہوگا۔ کیوں کہ مسئلہ اکانومی کا ہے اور زیادہ مسائل اسی سے وابستہ ہیں۔)
یہ پینڈولم بھی کم زور ہوگا، چاہے کتنا ہی کنٹرول کیوں نہ قائم کرلیا جائے، لیکن فطرت کے قوانین سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ انسان اتنا طاقت ور ہے نہیں جتنا خود کو سمجھتا ہے۔ وہ غلطیاں کرتا تھا، کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ مَیں نے ایک جگہ ایک قول پڑھا تھا جو ہم انسانوں کے ذہن کی بہترین عکاسی کرتا ہے : ’’حقیقت میں پھٹا ہوا کپڑا، ذہن میں شاہی چادر ۔‘‘
(In Reality a torn cloth, in Mind a royal cloak)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے