تبصرہ: حاجرہ ریحان
اور سب سے بڑا سانحہ تو یہ ہے کہ آپ 3 سال تک محبت کسی لڑکی سے کرتے رہے ہوں، مگر اپنے ساتھ بھگا کر کسی اور لڑکی کو لے آئیں۔
کتاب میں ترکی اور استنبول کی تاریخ کو دھرایا گیا ہے۔ کس طرح استنبول میں دور دراز گاؤں قصبوں سے غریب طبقوں نے یلغار کی صورت ہجرت کرکے حالیہ استنبول کی بنیاد ڈالی۔ اس کتاب میں استنبول میں پائے جانے والے تقریباً ہر ریڑھی والے کے شب و روز کے بارے میں بڑی خوب صورتی سے بتایا گیا ہے۔
ترکی میں جب الکوحل بند کر دی گئی، تو ایک شربت جس کا نام ’’بوزا‘‘ رکھا گیا، نکالا گیا…… جس میں تھوڑی بہت شراب کی آمیزش کی گئی، جوکہ مسلمان بھی اپنے ایمان کو خراب کیے بغیر پی سکتے تھے۔ کیوں کہ بوزا کو قومی شربت کا درجہ حاصل تھا (ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں ہم درد کا روح افزا ہے۔)
بوزا بنانا اور بنا کر بیچنا کسی زمانے میں ایک بہت منافع بخش کاروبار تھا، مگر پھر مغربی تقلید میں نئی نئی کولڈ ڈرنکس نے بوزا کی مانگ کو صرف شوقیا کبھی کبھار پینے تک محدود کر دیا۔ لوگوں کو اُس کے ہاتھ سے بنائے جانے پر بھی شک و شبہات ہونے لگے۔
ہمارا ہیرو ایک ایسا ہی غریب بوزا بیچنے والا شریف النفس انسان تھا۔ جس نے اپنے گاؤں میں ایک لڑکی سے ڈٹ کر محبت کی۔ اُسے تین سال تک محبت نامے بھی بھیجتا رہا اور پھر اپنے کزن کی مدد سے بھگانے کا بھی مکمل جامع منصوبہ بنایا۔ بس ہوا اتنا کہ وہ جس لڑکی کو اب تک خط لکھتا رہا تھا، اُس کی بجائے اُس کی بڑی بہن کو بھگا کر لے آیا۔
مجھے ’’اورحان پاموک‘‘ پڑھتے ہوئے جو بات سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، وہ ہے اُس کا ’’تنہائی‘‘ کو رنگین کرنے کا انداز۔
ہم سب بہت سے رشتوں اور دوستوں کے ہونے کے باوجود کبھی بہت تنہا ہوتے ہیں…… اور کچھ لوگوں کو تو سب کچھ میسر ہو کر بھی تنہائی میں ایسا مزہ آتا ہے کہ وہ چاہ کر بھی خود کو ’’سوشل‘‘ نہیں کر پاتے، مگر ایک غریب انسان جس نے زندگی بھر اپنے باپ دادا کی روایت کو قائم رکھنے کے شوق کے علاوہ کوئی شوق نہ پالا ہو…… جب کہ اُس کے اِرد گرد دُنیا بھاگ دوڑ میں مصروف ہو، وہ ہر دن یہ سوچ کر کرتا ہو کہ وہ آج بھی وہی کرے گا جو وہ پچھلے چالیس سالوں سے کرتا رہا ہے۔ تنہا رات گئے تک سنسان گلیوں میں پھر کر ’’بوزا‘‘ کی دردناک آواز جب اُس کے منہ سے نکلتی تھی، تو نہ چاہتے ہوئے بھی کئی کھڑکیاں کھل جاتیں اور اُس سے بوزا کی فرمایش کی جاتی…… مگر پھر لوگوں کو بوزا لیتے ہوئے یاد آ جاتا کہ یہ شربت تو مختلف چیزوں کو ملا کر بنایا گیا ہے، جن کے "Hygienic” ہونے پر اُن کو شک ہوتا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے ہیرو سے ایسے سوالات کرتے جس سے اُس کا دل ٹوٹ جاتا۔
ایک بہت ہی خوب صورت …… تنہا…… اُداسی سے بھری کہانی……جس کو پڑھتے ہوئے اپنے بھی کئی دکھ درد، کئی تکالیف، کئی بار کھائی ہوئی ایک جیسی چوٹ…… اور پھر سنبھل کر آگے بڑھنے کی جد و جہد…… جیسے سب کچھ خود بخود صفحات پر بکھرنے لگے۔
جو لوگ تنہائی کو رنگین کرنے کا گُر جانتے ہیں…… جو لوگ تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں…… اُن کے لیے ایک بہت ہی خوب صورت کتاب ہے یہ…… ’’ایک خوش گوار مطالعہ……!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔