جب بھی نفسیات کی بات کریں، تو لوگوں کی سب سے اولین دلچسپی شخصیت کو جاننے میں ہوتی ہے، جب کہ شخصیت کو حتمی لفظوں اور نظریات میں تقسیم کرنا عموماً ممکن نہیں ہوتا…… لیکن ہمیں اپنی سمجھ کے لیے پیچیدہ معاملات اور نظریات کو لفظوں میں بیان کرنا پڑتا ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
ایکسٹرا ورژن ، انٹرو ورژن جیسے الفاظ کا استعمال آج کل کثرت سے ہوتا ہے۔ سائیکالوجسٹ ایکسٹروورٹ اُن لوگوں کو کہتے ہیں، جو عموماً اپنی توانائی باہر سے حاصل کرتے ہیں۔ لوگوں سے گھل مل، بڑے گروپ اور بڑے تجربات سے خوش ہوتے ہیں۔ جب کہ انٹروورٹ وہ لوگ ہیں جو عموماً زیادہ گھلتے ملتے نہیں، شرمیلے ہوتے ہیں، خاموش رہتے ہیں، زیادہ گھومنا پسند نہیں کرتے ، زیادہ وقت اکیلے گزارتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی میں انٹروورٹ اور ایکسٹروورٹ ایسے ہوتے ہیں؟
ایکسٹروورٹ لوگوں کے متعلق جو کہا جاتا ہے، وہ درست ہے کہ انھیں توانائی باہر سے (External Source) سے حاصل ہوتی ہے، لیکن یہاں مسئلہ انٹروورٹ کے حوالے سے ہے۔ کیوں کہ کچھ لوگ جو علاحدگی (Isolation) کا شکار ہیں، وہ بھی خود کو انٹروورٹ کہتے ہیں۔ اس انٹروورٹ والے لیبل کو خود پر لگا کر وہ لوگ جو ناہم وار بچپن یا کسی اور وجہ سے خود کو محدود کرلیتے ہیں، انھیں اس بات پر سوچنے کا موقع نہیں ملتا کہ وہ علاحدگی کا شکار ہیں اور یہ علاحدگی انھیں نقصان پہنچا رہی ہے۔ انھیں اچھے تعلقات بنانے یا اپنے ٹیلنٹ کا اظہار کرنے سے روک رہی ہے…… جب کہ انٹروورٹ ایسے نہیں ہوتے جیسا کہ عموماً ہمارے سامنے ان کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ زیادہ تر علاحدگی کا شکار لوگ تنہائی میں فرار ڈھونڈ کر خود کو انٹروورٹ کَہ کر اپنی نشو و نما کو روک دیتے ہیں۔
تو پھر انٹروورٹ کیسے ہوتے ہیں؟
ایک نارمل انٹروورٹ انسان تنہائی میں زیادہ وقت نہیں گزارتا، بلکہ سارا دن اپنے کام انجام دینے کے بعد اکیلے خود اپنے ساتھ کچھ وقت گزارنا اس کی توانائی کو اگلے دن کے لیے بحال کرتا ہے۔ انٹروورٹ لوگ دوست بناتے ہیں۔ سوشل ہوتے ہیں، تاکہ اچھے تعلقات بنا سکیں۔ البتہ انٹروورٹ بولنے سے پہلے سوچتے زیادہ ہیں۔ انھیں اکیلے وقت گزارنے میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بے شک یہ لوگ گہری سوچ اور گہرے تجربات کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بہت کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ خاص کر سطحی جدید دنیا میں ایسے لوگ زیادہ پھل پھول رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ گہری سوچ کے حامل اور بوریت (Boredom) کو برداشت کرپاتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
اس جدید دنیا میں اگر ہمیں کسی جذبے کو زیادہ سراہنے اور اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے، تو اس کا نام بوریت ہے۔ بوریت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ سب کو بڑے، ولولہ خیز اور محرک (Exciting) قسم کے تجربات کی چاہ ہے۔ البتہ جس نے بوریت کو پراسس کرلیا اپنے کیریئر اور رشتوں میں، تو سمجھ جائیں کہ وہ زندگی کو نہ صرف سمجھ گیا بلکہ جی بھی گیا۔ بوریت کا جذبہ آپ کے جسم میں عجیب ناخوش گوار احساسات پیدا کرتا ہے، جسے محسوس نہ کرنے کے لیے ہم تفریح کے پیچھے دوڑتے ہیں۔
بنی نوع انسان نے آج تک جو بھی ایجادیں کی ہیں، وہ بوریت کی ہی دین ہیں۔ بوریت نے ہمیں نئے مقاصد ڈھونڈنے اور پھر انھیں حاصل کرنے کی صلاحیت اور طاقت دی اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس سیارے کے حکم ران ہیں۔ بوریت آپ کے دماغ کو یہ سگنل دیتا ہے کہ اب کچھ نیا سیکھنے اور نیا مقصد تلاش کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب ایسے میں جب آپ اس نئے مقصد تلاش کرنے والے جذبے کو تفریح (ہلکی پھلکی تفریح بری نہیں، مَیں یہاں ماڈرن دنیا کی ڈوپامین کی اعلا مقدار والی تفریح کی بات کررہی ہوں) کا نشہ کرواتے ہیں، تو پھر اس کے یقینا نقصانات ہیں۔
غور کریں کہ آپ کہیں علاحدگی کا شکار تو نہیں؟ لوگوں کے رویے آپ کو محرک (Trigger) کرتے ہیں اور آپ ان سے بچنے کے لیے تنہائی کا سہارا لے کر خود کو انٹروورٹ کَہ کر اپنی نشو و نما کو روک تو نہیں رہے؟
خود پر مخصوص لیبل بِنا کسی نالج کے نہ لگایا کریں، اور اگر لگائیں بھی، تو وقتاً فوقتاً اپنی حرکتوں اور سوچ پر سوال ضرور اٹھائیں۔ معلوم کریں کہ کہیں آپ کے محدود نظریات اور خود پر لگائے لیبل آپ کو دھوکا تو نہیں دے رہے۔ آپ کو گم راہ تو نہیں کررہے ۔
لیکن اپنے نظریات اور شخصیت پر سوال اٹھانے اور غور کرنے کے اس عمل میں ایک بات کا دھیان رہے کہ ہم بیشک ہر چیز کو ٹھیک نہیں کرسکتے اور شاید سب ٹھیک کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمیں اپنی حدود کا اندازہ لگاتے ہوئے کبھی کبھار اپنی کچھ خامیوں کو قبول کرلینا چاہیے۔ آخر کو ہم انسان ہیں، خدا نہیں! جو بہتر کرسکتے ہیں، اُسے بہتر کرنا غلط نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔