انتخاب: احمد بلال
بس اسٹاپ پر بوڑھا شخص اور ایک حاملہ عورت بس کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بوڑھا شخص تجسس سے عورت کے پیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس نے پوچھا: ’’آپ کس مہینے میں ہیں ؟‘‘
عورت پریشان ہو گئی اُس کے اداس چہرے سے پریشانی صاف عیاں تھی۔ پہلے تو اُس نے بوڑھے شخص کے سوال پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر چند لمحوں بعد اس نے جواب دیا:
’’میں 23ویں ہفتے میں ہوں۔
بوڑھے نے پھر پوچھا: ’’کیا یہ آپ کی پہلی پیدایش ہے؟‘‘
عورت نے جواب دیا:’’ہاں!‘‘
بوڑھے نے کہا: ’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
عورت نے پریشانی کے عالم میں پیٹ پر ہاتھ رکھا اور اپنے آنسو روک کر اُس کی طرف دیکھا۔ بوڑھے نے کہا: ’’ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی پریشانی کا احساس بعض اوقات ایسی چیزوں پر بڑھ جاتا ہے جن کے لیے اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
حاملہ عورت نے اداسی سے جواب دیا: ’’شاید……!‘‘
بوڑھا مزید متجسس لگ رہا تھا۔ ’’لگتا ہے آپ مشکل دور سے گزر رہی ہیں۔ تمھارا شوہر تمھارے ساتھ کیوں نہیں ہے؟‘‘
اُس نے جواب دیا:’’اُس نے مجھے چار مہینے پہلے چھوڑ دیا تھا۔‘‘
بوڑھے شخص نے پوچھا: ’’تمھارے گھر والے اور کوئی دوسرے عزیز کیا آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟‘‘
عورت نے گہرا سانس لیا اور کہا: ’’مَیں صرف اپنے بیمار والد کے ساتھ رہتی ہوں۔‘‘
بوڑھے شخص نے کہا: ’’مجھے یہ ایک مضبوط سہارا لگتا ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسو گرے: ’’ہاں، یہاں تک کہ جب وہ اس حالت میں ہو۔‘‘
بوڑھے شخص نے پوچھا: ’’اُسے کس عارضہ کی شکایت ہے؟‘‘
عورت نے جواب دیا: ’’اُسے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کون ہوں……!‘‘
اس نے اپنا یہ آخری جملہ اس بس کے آنے کے چند لمحوں بعد کہا، جو اُنھیں لے جانے والی تھی۔ وہ اُٹھی اور کہنے لگی: ’’ہماری بس آچکی ہے ۔‘‘ وہ پیچھے مڑی اور اسے ہاتھ سے پکڑا اور کہا: ’’چلو بابا چلیں……!‘‘
(احمد بلال اس کہانی کے آخر میں لکھتے ہیں کہ کہانی کار نامعلوم ہیں، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔