پختو زبان کے پہلے معلوم شاعر امیر کروڑ، امیر فولاد سوری کے بیٹے تھے۔ پختونوں کی دیگر کئی تاریخی شخصیات کی طرح امیر کروڑ کی بھی ٹھیک تاریخ پیدائش معلوم نہیں، لیکن تاریخ دان کہتے ہیں کہ وہ 139ھ (بمطابق 756ء) کو پرانے ’’غور‘‘ کے بادشاہ تھے۔
افغانستان علوم اکادمی کے حبیب اللہ رفیع اس حوالہ سے کہتے ہیں: ’’امیر کروڑ، غوری خاندان کے ایک بادشاہ اور پختو زبان کے پہلے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ 134ھ (بمطابق 751ء) کو تخت پر بیٹھے اور جلد ہی 154ھ (بمطابق 770ء) کو وفات پاگئے۔ ذکر شدہ دور (134اور 154ھ کے دوران) میں انہوں نے اپنی پہلی نظم جو پختو زبان کے پہلے اشعار کے طور پر جانی جاتی ہے، کہی ہے۔ (ذیل میں درج شدہ نظم کتاب ’’اتلان‘‘ میں ’’ویاڑنہ‘‘ کے عنوان سے رقم ہے۔ یہاں نمونہ کے طور پر صرف ایک بند رقم کیا جا رہا ہے، اس لئے کہ پختو کے کئی حروف اردو کے حروف سے یکسر مختلف ہیں اور لکھتے سمے کئی مشکلات سامنے آتی ہیں، راقم)
زہ یم زمری پر دی نڑیٔ لہ ما اتل نشتہ
پہ ہند و سند و پر تخار او پر کابل نشتہ
بل پہ زابل نشتہ، لہ ما اتل نشتہ

افغانستان کے علاقہ غور میں دورِ قدیم سے ایک قبیلہ رہتا تھا جسے اسلامی دور کے اوائل میں عرب مؤرخین نے زور یا سوری نام دیا۔ غور کے پہاڑوں کو عرب مؤرخین جبل رسوخ کہا کرتے تھے۔ عبدالرحمان بن ثمر کے لشکروں نے اس علاقہ کا 30ھ (بمطابق 650ء)میں محاصرہ کرلیا اور زور کے علاقہ کے لوگوں کے ساتھ صلح کرلیا۔ پھر بعد کی کتابوں میں عربی مؤرخین نے زور کو سور یا سوری کی شکل میں رقم کیا ہے۔ سوریوں اور لودھیوں کے بڑے خاندان اسی قوم کی شاخیں ہیں۔

افغانستان کے علاقہ غور میں دورِ قدیم سے ایک قبیلہ رہتا تھا جسے اسلامی دور کے اوائل میں عرب مؤرخین نے زور یا سوری نام دیا۔ غور کے پہاڑوں کو عرب مؤرخین جبل رسوخ کہا کرتے تھے۔ عبدالرحمان بن ثمر کے لشکروں نے اس علاقہ کا 30ھ (بمطابق 650ء)میں محاصرہ کرلیا اور زور کے علاقہ کے لوگوں کے ساتھ صلح کرلیا۔ پھر بعد کی کتابوں میں عربی مؤرخین نے زور کو سور یا سوری کی شکل میں رقم کیا ہے۔ سوریوں اور لودھیوں کے بڑے خاندان اسی قوم کی شاخیں ہیں۔

لکھاری اور محقق محمد معصوم ہوتک، امیر کروڑ کے خاندان، بادشاہی اور اُس دور کے متعلق کہتے ہیں: ’’افغانستان کے علاقہ غور میں دورِ قدیم سے ایک قبیلہ رہتا تھا جسے اسلامی دور کے اوائل میں عرب مؤرخین نے زور یا سوری نام دیا۔ غور کے پہاڑوں کو عرب مؤرخین جبل رسوخ کہا کرتے تھے۔ عبدالرحمان بن ثمر کے لشکروں نے اس علاقہ کا 30ھ (بمطابق 650ء)میں محاصرہ کرلیا اور زور کے علاقہ کے لوگوں کے ساتھ صلح کرلیا۔ پھر بعد کی کتابوں میں عربی مؤرخین نے زور کو سور یا سوری کی شکل میں رقم کیا ہے۔ سوریوں اور لودھیوں کے بڑے خاندان اسی قوم کی شاخیں ہیں۔ علاقہ غور کے زوروں یا سوریوں میں ملک شنسب بن خرنگ ایک مشہور شخص ہو گزرے ہیں۔ تاریخ میں آیا ہے کہ ملک شنسب کا امیر فولاد نامی ایک بیٹا تھا۔ پٹہ خزانہ کی روایات کے مطابق امیر فولاد کا امیر کروڑ نامی ایک بیٹا تھا جو غور کا بادشاہ تھا۔ اس کی بادشاہی کا دور 139ھ (بمطابق 756ء) کے آس پاس دکھایا گیا ہے۔‘‘
بعض لکھاری لکھتے ہیں کہ امیر کروڑ بادشاہ نہیں تھے بلکہ اکیلے ایک چھوٹے سے علاقہ کے حاکم تھے، لیکن حبیب اللہ رفیع اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’یہ جو افغانستان پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے، اکثر اس میں چھوٹے چھوٹے حکمران ہو گزرے ہیں۔ لیکن وہ (امیر کروڑ) اپنے اشعار میں کہتے ہیں کہ میری شہرت ہند اور سندھ تک ہے۔ میں ایک مقتدر بادشاہ ہوں۔ غور میں سلطنت رکھتا ہوں اور باقی ماندہ دنیا کے ساتھ روابط رکھتاہوں۔ یہ شعری مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن وہ مقتدر بادشاہ تھے اور عالمی شہرت بھی رکھتے تھے۔ کوہِ غور کی مناسبت سے غوریوں، زوریوں اور سوریوں کو نام دیا گیا ہے۔ یہ قومی نام ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں کئی بار بادشاہی کی ہے۔ غزنیوں کے ساتھ بھی لڑے ہیں اور ایک بار تو غزنی کو پکڑ بھی چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ان کی بادشاہی تھی۔ امیر کروڑ ان کے اولین بادشاہوں میں سے ہیں جن کے والد امیر فولاد تھے جو بغداد کی خلافت سے حکمرانی کا آرڈر لے آئے تھے اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے تھے۔ غور میں حکومت کرتے تھے۔ امیر فولاد کی وفات کے بعد امیر کروڑ بادشاہ کے تخت پر بیٹھ گئے۔‘‘
معصوم ہوتک، امیر کروڑ کی بادشاہی اور غور کی حدود کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں: ’’غور کی حدود آج کل کے ہرات کے آس پاس ہیں۔ امیر کروڑ کے ویاڑنہ (نظم) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ البتہ اس میں غزنی کی حدود شامل نہیں تھیں۔ پرانے زمانے میں افغانستان میں متحدہ بادشاہی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ میر ویس خان کے دادا کے دور میں بھی افغانستان کسی واحد ادارہ کے زیر اثر نہیں تھا۔ یہ قندھار سے غزنی، مقر، فراہ تک اور پشین، شال اور آج کل کے کوٹی تک کے علاقہ تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر احمد شاہ بابا کی بادشاہی میں افغانستان ایک بار پھر متحد ہوگیا۔ اس دور میں ان حدود میں کبھی اضافہ ہوتا اور کبھی کمی آتی۔ کبھی شہنشاہیت کا دور دورہ ہوتا، کبھی امارت بنتی۔ امیر کروڑ کے زمانہ میں غور کا علاقہ مرکزی افغانستان سے لے کر ہیرات تک فتح کیا گیا تھا۔‘‘
امیر کروڑ نے اپنے اشعار (لہ ما اتل نشتہ) کی وجہ سے کافی شہرت پائی اور یہ اب بھی کئی لوگ کہتے رہتے ہیں۔ موصوف رفیع کہتے ہیں کہ امیر کروڑ کے صرف یہی اشعار ہاتھ آئے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی شاعری کا کچھ اتا پتا نہیں۔ ان کے بقول یہ پشتو کے اولین تحریر شدہ شعر ہیں۔
’’یہ اولین معلومات پٹہ خزانہ سے ہاتھ آئی ہیں۔ ان کے اشعار بھی پٹہ خزانہ میں محفوظ ہیں۔ ان کے سوانح بھی پٹہ خزانہ میں موجود ہیں۔ ان کے خاندان اور والد کے حوالہ سے طبقات ناصری میں معلومات آئی ہیں اور غوریوں کی دیگر تواریخ میں بھی آئی ہیں۔ فعلاً ان کے یہی اشعار دستیاب ہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اور بھی اشعار کہے ہوں، لیکن اب زمانے گزر گئے ہیں۔ تقریباً تیرہ سو سال گزر چکے ہیں۔ پختون پانچ ہزار سالہ تاریخ رکھتے ہیں۔ پختو کا لوک ادب ویدی اور اوستائی آہنگوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ پختو کے لوک گیت بہت قدیم ہیں اور اس میں وہی ویدی اور اوستائی افکار تکرار ہوئی ہیں، لیکن تحریری شکل میں جو اشعار ہمارے ہاتھ آئے ہیں، یہی امیر کروڑکا ویاڑنہ (نظم) ہیں۔ اس سے قبل کوئی تحریر شدہ شعر دستیاب نہیں ہے۔ ‘‘

امیر کروڑ نے اپنے اشعار (لہ ما اتل نشتہ) کی وجہ سے کافی شہرت پائی اور یہ اب بھی کئی لوگ کہتے رہتے ہیں۔ موصوف رفیع کہتے ہیں کہ امیر کروڑ کے صرف یہی اشعار ہاتھ آئے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی شاعری کا کچھ اتا پتا نہیں۔ ان کے بقول یہ پشتو کے اولین تحریر شدہ شعر ہیں

امیر کروڑ نے اپنے اشعار (لہ ما اتل نشتہ) کی وجہ سے کافی شہرت پائی اور یہ اب بھی کئی لوگ کہتے رہتے ہیں۔ موصوف رفیع کہتے ہیں کہ امیر کروڑ کے صرف یہی اشعار ہاتھ آئے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی شاعری کا کچھ اتا پتا نہیں۔ ان کے بقول یہ پشتو کے اولین تحریر شدہ شعر ہیں

حبیب اللہ رفیع کہتے ہیں کہ امیر کروڑ ایک پہلوان بھی تھے۔ عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کے لئے بھی وہ مشہور تھے۔
(نوٹ:۔ یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب ’’اتلان‘‘ کے مضمون ’’امیر کروڑ‘‘ کا من و عن ترجمہ ہے، جس میں پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ، نیاز احمد خان اور عطاء اللہ جانؔ ایڈووکیٹ نے مترجم کی معاونت فرمائی۔)