سنہ 2018ء کو جولائی کی مہینے میں ایک سرکاری فیلو شپ کے ذریعے امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ امریکہ پہنچتے ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ تعلیم اور معلم کی کتنی عزت کرتے ہیں۔
جب ہم امریکی ریاست میسی چیوایٹ کے بوسٹن انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہ اُترے، تو اپنی منفرد شناخت اور واحد نام (Single Name) کی وجہ سے تفصیلی تفتیش کے لیے ایک الگ کمرے میں بلائے گئے۔ تفتیش کے دوران میں ڈھیر سارے سوالات کیے گئے، جن کے مَیں نے ممکنہ طور پردرست جوابات دیے۔ آخر میں جب تفتیشی افسر کو پتا چلا کہ مَیں ایک اُستاد ہوں اور یہاں امریکہ میں ریاستی ادارے کی طرف سے امریکی نظامِ تعلیم کا جائزہ لینے آیا ہوں، تو افسر نے جلدی ہی میرے تمام کاغذات کو ’’اُو کے‘‘ قرار دے کر مجھ سے معذرت کرلی اور مجھے جانے دیا۔ اس تجربے سے مجھے یہ سبق ضرور ملا کہ امریکہ میں اُستاد کی کتنی عزت ہے!
اس کے بعد جب بھی کہیں پوچھ گچھ ہوتی، تو مَیں فوراً کہتا کہ مَیں اُستاد ہوں اور یہاں یونیورسٹی آف میسیچوسیٹس میں ٹیچرز ٹریننگ لینے آیا ہوں۔
اس کے علاوہ مختلف افراد سے ملاقاتوں کے دوران میں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ امریکہ میں سب سی زیادہ عزت اور اعلا مقام پرائمری اساتذہ کا ہے اور سب سے زیادہ تنخواہیں بھی انھی کی ہیں۔ امریکہ میں اگر آپ کسی بڑی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، یا گاؤں کے ایک چھوٹے پرائمری سکول میں، آپ کو ایک ہی نام سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ہے ’’استاد!‘‘ وہاں کوئی خواہ مخواہ اپنے آپ کو پروفیسر یا لیکچرار بلوانے کی ضد نہیں کرتا۔ اس کا موازنہ اگر پاکستان سے کیا جائے، تو ہمارے ہاں سب سے خوار پرائمری سکول ٹیچر ہے اور سب سے زیادہ ذلیل بھی اُسے ہی کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اپنے آپ کو پرائمری اُستاد کہنے پر بھی لوگ شرم محسوس کرتے ہیں۔ محکمۂ تعلیم نے بھی اسی سلسلے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور وقتاً فوقتاً اُستاد کی تذلیل جاری رکھی۔
ماضی میں، مَیں نے اکثر لوگوں کو پرائمری استاد بھرتی ہونے پر یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ اور کوئی کام نہیں، تو یہی پیشہ اختیار کرلیتے ہیں۔ مطلب لوگ اپنی مرضی سے نہیں، بل کہ بے روزگاری کی وجہ سے اس پیشے کو اپناتے ہیں جو کہ معاشرے کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ اُستاد کی عزت نہ کرنے میں اُستاد کا خود بھی بڑا کردار رہا ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ اکثر تنقید کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ ہم نے امریکہ میں ایک مہینے کی تربیتی ٹریننگ مکمل کرلی اور اس کے بعد ہمیں امریکی ریاست "Massachusetts” میں مختلف پرائمری سکولوں کے دورے کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
ہمارے ’’منٹورز‘‘ (Mentors) کے مطابق ہمیں ایسے سکولوں کا جائزہ لینا ہوگا جو کہ درمیانی معیار کے ہوں گے۔ مطلب یہ کے اعلا درجے کے سکول نہیں ہوں گے۔ ہمیں روزانہ کے حساب سے ایک سکول کا وزٹ کرنا ہوتا تھا اور دن کے اختتام پر اُسی سکول کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا تھا۔ ایک پرائمری سکول ٹیچر کی حیثیت سے مَیں نے اپنی مرضی کے مطابق زیادہ تر توجہ پرائمری سکولوں کے اوپر مرکوز کی۔ مَیں چاہتا تھا کہ امریکہ میں پرائمری تعلیم کے بارے میں جان کاری حاصل کرلوں اور بعد میں اگر ممکن ہو، تو واپس جاکر اپنے ملک میں پڑھائی کے دوران میں ان عوامل کو استعمال میں لاکر بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ سب سے پہلے ہم ’’ایمہرسٹ‘‘ (Amherst) میں واقع ایک پرائمری سکول میں گئے، جہاں داخل ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب پاکستان کے سکولوں میں کبھی ایپلائی نہیں کرسکتے۔ میرے ساتھ پاکستان کے ایلیٹ سکولوں کے اساتذۂ اکرام بھی موجود تھے اور جن کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمارے پاس پاکستان میں ایسے وسائل بالکل نہیں، جن کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ایسا نظام قائم کر سکیں۔ پرائمری سکولوں کی کلاسوں میں 15 سے 20 کے درمیان بچے ہوتے ہیں۔ کلاس میں پڑھائی کے دوران میں ایک کی بہ جائے دو، دو اساتذہ موجود ہوتے ہیں۔ میرے اصرار کرنے پر پتا چلا کہ ایک ٹیچر پڑھانے کے لیے جب کہ دوسرا استاد اسسٹنٹ کے طور پہ کلاس میں موجود ہوتا ہے، جہاں کہیں ضرورت پڑے، تو وہ طلبہ کے مسائل سننے کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ پانچویں جماعت کے طلبہ کو 40 منٹ کی کلاس میں 20 منٹ کی پڑھائی، جب کہ 20 منٹ کا پراجیکٹ دیا جاتا ہے، جس کو وہ اپنے اپنے لیپ ٹاپ میں مکمل کر کے جائزہ لینے کے لیے اسسٹنٹ ٹیچر کے حوالے کرتے ہیں۔
سوالات اور جوابات کے دوران میں معلوم ہوا کی وہ پاکستان اور ایشیا بارے کافی معلومات بھی رکھتے ہیں۔ آخر میں سکول پرنسپل سے مل کر ایک ایسا انکشاف ہوا کہ مَیں تو حیران رہ گیا۔ پرنسپل نے بتایا کہ ریاست کی طرف سے ہر سکول کا اپنا بجٹ ہوتا ہے، جس کو اساتذہ کی تنخواہوں سمیت اسکول کی سالانہ سرگرمیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ہر اسکول خود مختار ہوتا ہے۔ سکولوں کی کارکردگی کا سالانہ ایک شفاف اور آزادانہ جائزہ لیا جاتا ہے، جس میں ادارے کی باقاعدہ گریڈینگ ہوتی ہے۔
سکول پرنسپل کے مطابق امریکہ میں اکثریت ایسے ہی سکولوں کی ہے۔ تمام پبلک سکولوں کو خود مختار بنانے کا مقصد بھی عوام کو بہترین تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی عوام میں مقبولیت بھی اُجاگر کرنا ہے ۔ ہمارے نظامِ تعلیم کے برعکس امریکہ کے ہرپرائمری اسکول میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم جس میں کارپنٹری، تعمیراتی کام اور گاڑیوں کی مرمت کا کام سرِ فہرست ہے، کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں، جس کا مقصد معاشرے میں افرادی قوت پیدا کرنا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔