پشتو زبان کے معروف اُستاد احمد گل نے سال 1940ء میں ایک ہنر مند ’’وہاب گل‘‘ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کی جائے پیدائش پشاور کے نزدیک ’’برہ سوڑیزو‘‘ ہے۔ خوش قسمتی سے آپ کی پرورش ایک ہنر مند گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم ایک نامور گلوکار اور طبلہ نواز تھے۔ آپ کے چچا ’’گل خان‘‘ کی شہرت اور ہنر مندی کا چرچہ دہلی، کلکتہ اور افغانستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اُستاد احمد گل نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، جو انہیں میراث میں ملی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اُستاد احمد گل نے اپنی زندگی پشتو موسیقی کے لیے وقف کر دی ہے اور یہ ہنر دوسروں تک منتقل کرنے میں زندگی کا بیشتر حصہ صرف کر رہے ہیں۔ آپ علاقائی گیتوں کے ساتھ غزل، چاربیتہ، سربیرہ (پشتو زبان کی اصنافِ شاعری) بھی گائے ہیں، مگر لوک گیت آپ کی وجۂ شہرت بنے۔
اُستاد احمد گل اپنے فن کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ موسیقی انہوں پشتو زبان کی صنف ’’چاربیتہ‘‘ کو زیادہ گایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صنف پشتون معاشرے اور ثقافت کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ اپنے فن کے اساتذہ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اُس وقت کے مشہور ہنرمندوں کے ساتھ ان کے مراسم تھے۔ آپ اُن کے ساتھ میدانی محفلوں میں جایا کرتے تھے۔ جہاں اُن سے ’’ٹپہ‘‘ کو گانے کا انداز سیکھا۔ "مَیں نے اپنے دور میں فنِ موسیقی کے منجھے ہوئے اساتذہ کے ساتھ ڈھیر ساری محفلوں میں شرکت کی، جن میں استاد سبز علی خان، انظر گل بابا، استاد صحبت خان، گلامیر، نورالرحمان، گل رحمان، آدم خان اور دلبر خان وغیرہ شامل ہیں۔ ٹپہ، جو پشتون موسیقی کی پہچان ہے، اس سے پشتونوں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی زندگی کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اس میں پشتونوں کی زندگی کا فلسفہ، ننگ و ناموس کی داستانیں، غمِ دنیا اور غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ تصوف کے رنگ بھی بکھرے پڑے ہیں۔
پہ لارہ زم، زمکی تہ گورم
زہ دے بے ننگو یارئی ٹیٹی سترگی کڑمہ
میرے بڑے اساتذہ نے پشتو "ٹپے” مختلف راگوں جیسے جنگلہ، بیرمی اور پہاڑی کے ساتھ گائے ہیں۔ بعض گلوکار کھڑے ہو کر ٹپے گاتے تھے، جس کو "رمداد خان ٹپے” کہتے ہیں۔”
اُستاد احمد گل اپنے فنِ گلوکاری کے حوالے سے مزید بتاتے ہیں: "مَیں نے "ٹپے” مختلف راگوں میں گائے ہیں جو مقبول عام ہوئے ہیں۔ مجھے وزیرستان سے بھی محفلِ موسیقی میں شرکت کی دعوتیں ملی ہیں۔ وہاں پر مَیں نے ان کے من پسند گیت اور ٹپے گائے ہیں۔ وزیرستان کے لوگ پہاڑی راگ کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے وہاں "پہاڑی راگ” میں ٹپے کہے ہیں۔
پہ زڑہ بہ غٹہ تیگہ کیدم
ستا دہ یاری بہ زڑگے رو رو صبروومہ
اُستاد احمد گل نے ڈھیر سارے چاربیتے گائے ہیں۔ اُنھوں نے مشہور لوک گیت، چار بیتے اور ٹپے اُستاد گلوکاروں سے اَزبر کیے تھے، جو بعد میں وہ مجلسوں اور میدانی محفلوں میں گایا کرتے تھے۔ "مَیں اساتذہ گلوکاروں کے ساتھ میدانی محفلوں میں کھڑے ہو کر ہم نوائی کرتا تھا۔ وہ چاربیتے گاتے اور ہم ان کے ساتھ ردیف کی تکرار میں ہم نوائی کیا کرتے تھے۔ وہ چاربیتہ کی گائیکی میں پہلے "ٹپے” گاتے اور آخری "ٹپے” میں چاربیتہ کے سُر ملا دیتے تھے۔ "جنگلہ” اور "بیرمی” راگ میں ٹپے کے بعد چار بیتہ گانا آسان ہوتا ہے، جب کہ "پہاڑی” راگ میں اس طرح کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔”
اُستاد احمد گل فنِ موسیقی میں اپنے ہم پلہ ساتھیوں کو حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ پختون خوا کے ہر گلوکار کے ساتھ گاچکے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے انہوں نے دوسرے ہم عصر گلوکاروں کے ساتھ مل کر ٹپے اور گیت ریکارڈ کروائے ہیں۔
’’مَیں نے اور احمد خان نے مل کر ریڈیو پاکستان کے لیے بہت سارے چاربیتے، ٹپے اور لوبے ریکارڈ کروائے ہیں۔ ریڈیو پروگرام ریکارڈ کراتے وقت مائیک تک پہنچنے کے لیے پروڈیوسر حضرات ہمارے پیروں کے نیچے لکڑی کا سہارا رکھتے، تاکہ آواز صحیح طور پر مائیک میں جا سکے۔ ہم نے ریڈیو کے لیے مذکورہ بالا راگوں میں بہت سارے ٹپے اور چاربیتے گائے ہیں۔”
اُستاد احمد گل اپنے فن کے حوالے سے مزید گویا ہیں، چوں کہ خواندہ نہیں تھا، مگر پھر بھی لمبے اور طویل چاربیتے اَزبر کرکے گائے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اب اُن کا حافظہ بھی کمزور ہوگیا ہے، جس کی بنا پر انھیں اپنے بعض چاربیتی یاد نہیں رہے ہیں۔
"ابھی میں زندگی کے 78ویں سال میں ہوں۔ میرے گائے ہوئے بہت سارے چاربیتے اب مجھے یاد نہیں رہے۔ ہم چاربیتے کچھ یوں گاتے تھے:
پخوا دَ بابا آدم نہ راتہ ووایہ سہ حال
پہ تیرہ زمانہ کی راتہ ولیکہ حساب
راشہ وگورہ دلبرہ عشق دی اور د ے کہ نہ دے
پہ لمبو می وجود سوی لکہ سکور دی کہ نہ دے
کم و بیش 20 کے قریب چاربیتے میں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر گائے ہوں گے، مگر اس میں اکثر اب یاد نہیں ہیں۔ چاربیتے گانے کا فن مَیں نے میدانی محفلوں میں اپنے اساتذہ کو گاتے ہوئے سیکھا ہے۔ ریڈیو کے لیے ریکارڈنگ سے پہلے پروڈیوسرحضرات مجھے آٹھ، دس دن پہلے چاربیتے دیا کرتے تھے، جنہیں میں یاد کرکے پھر ریکارڈ کرایا کرتا تھا۔”
اُستاد احمد گل نے چاربیتوں کے ساتھ "ٹپے”، "سربیرے” اور "غزلیں” وغیرہ بھی گائی ہیں، جو سننے والے کے دل کو چھو جاتی ہیں۔ بطورِ نمونہ رحمان بابا کی یہ غزل:
لیونے شم نن می یار لیدلے نہ دے
ما دَ دوہ کونو سردار لیدلے نہ دے
اُستاد احمد گل سریلی آواز کی عنایت پر مالکِ دونوں جہاں کے شکر گزار ہیں کہ یہ فنِ موسیقی کے مروجہ سروں پر پوری اُترتی ہے، اور شعر کو پوری صحت کے ساتھ گاتے ہیں جسے لوگ پسند کرتے ہیں۔
بقول احمد گل استاد، "یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اُس نے فنِ موسیقی کے سروں پر پوری اُترنے والی آواز سے مجھے نوازا ہے۔ دوسرا کرم پروردگار نے یہ کیا ہے کہ لفظوں کو درست ہجوں کے ساتھ پڑھنے کا فن دیا ہے۔ مَیں اپنی تیز سُریلی آواز کو مجمع کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچاتا تھا۔ اِس کرم اور مہربانی پر اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے اس طرح عزت و شہرت سے نوازا ہے۔”
پشتو زبان کے معروف شاعر، ڈرامہ نگار اور ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام ترتیب دینے والے جناب "لائق زادہ لائقؔ” اُستاد احمد گل کو کچھ یوں سراہتے ہیں: "پشتو گائیکی کرنے والے گلوکاروں میں احمد خان کے بعد اونچے سروں میں غزلیں اور چاربیتے گانا اُستاد احمد گل کا ہی خاصا ہے۔ اُن کی شخصیت پشتو کے دوسرے گلوکاروں سے اس بنا پر منفرد ہے کہ وہ خود کو "میراثی” کہنے پر فخر کرتے ہیں۔ انھوں نے موسیقی کا فن عام لوگوں کو اپنی اولاد کی طرح سکھایا ہے۔”
اُستاد احمد گل اب اپنے اہل و عیال کے ساتھ پشاور کے نزدیک اپنے گاؤں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی صحت اب بہت گر چکی ہے، مگر وہ اب بھی اپنے مداحوں سے پُراُمید ہیں کہ وہ اُنھیں موسیقی کے پروگراموں میں مدعو کریں گے، جس سے ملنے والے اعزازیہ سے اُن کے گھر کا چولھا جلے گا اور اُن کی مشکل بھی حل ہوتی رہے گی۔
(مشال ریڈیو کی شائع کردہ ہارون باچا کی پشتو تصنیف "نہ ھیریگی نہ بہ ھیر شی” سے "استاد احمد گل” کا ترجمہ)